تازہ ترینمضامین

ماڈرن فِمنزم اور معاشرے پراس کے اثرات۔۔۔تحریر۔انعام اللہ

آج کل ایک چیز پر بڑا زور دیا جا رہا ہے۔ اشتہارات، ٹی وی شوز، مویز اور تقریبًا ہر ایک پلیٹ فارم پر مختلف ادارے اس پر کام کر رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ مرد اور عورت دونوں برابر ہیں،جیسے مرد رہتے ہیں عورتوں کو بھی ویسے ہی رہنا چاہیے۔ یہ کانسپٹ ہے فِمنزم کا۔یہ وہ کانسپٹ ہے جس پر آج پوری دنیا میں کام ہو رہا ہے۔اگر دیکھا جائے تو لوگوں کا ردعمل بھی مختلف ہے، بعض اس کے منفی اثرات سے پریشان ہیں تو کچھ اس بات سے خوش ہیں کہ ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں۔
ویسے جہاں تک مرد اور عورت کے برابر ہونے کی بات ہے،اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ لیکن فِمنزم کا کانسپٹ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ یہ جس کلچر میں داخل ہوتا ہے اس کلچر کی دھجیان اڑا دیتا ہے۔یوں کلچر ڈسٹورشن کے لئے فِمنزم کا نظریہ ایک مضبوط ہتھیار ثابت ہوا ہے۔جب اس کے اثرات کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا دنیا کی کلچر کو تبدیل کیا جا رہا ہے؟وجہ کیا ہے ایسا کرنے کی؟ منیجمنٹ سٹڈیز میں پڑھایا جاتا ہے کہ پالیسز امپلمنٹ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کلچر ہے۔ جب کسی ملک یا ادارے میں ایک سے زیادہ کلچر ہوں تو وہ نئے قوانین اور پالسیز کو رزسٹ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک جیسا کلچر ہو تو اس ملک یا ادارے کے لئے جو بھی پالیسی بنائی جائے اس پر عمل کروانا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔اس لئے پہلے کلچر کو چینج کیا جائے۔ایک اور سوال، کیا پوری دنیا میں عالمی اسٹبلشمنٹ قائیم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟خیر یہ ایسے سوالات ہیں جن پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میں ان کے جوابات آپ سے کمنٹ میں لینا چاہوں گا۔فلحال ہم اس کے اثرات پر بات کرتے ہیں۔
بعض قارئیں سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کوئی مذہبی تنظیم سے منسلک ہوں اور معاشرے کے نظام پر تنقید کرنے کے لئے بحث میں اُلجھ رہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم سب کے مشاہدے میں آتے ہیں اور میں اپنی زاتی بلاگ بھی چلاتا ہوں تو مجھے سنکڑوں ای میل روزانہ ان مسائل پر موصول ہوتے ہیں۔ میں اکثر ان چیزوں کے پیچھے وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔
یوں توفِمنزم کے اثرات ہمارے معاشرے پر بہت زیادہ ہیں۔ لیکن چند نمایاں اثرات زیرِ بحث لاتے ہیں۔
رشتوں میں احساس اور لحاظ کم ہونے لگا ہے
پہلے ارینج میرجیز ہوتی تھی۔بغیر ایک دوسرے کو دیکھے اور بغیر ایک دوسرے کو جانے شادیاں ہو جاتی تھی اور ان رشتوں میں اتنا پیار اور لگاؤ ہوتا تھا کہ وہ ساری زندگی خوشی سے ساتھ رہتے تھے۔ اب تو اکثر پسند کی شادیاں ہوتی ہیں۔ شادی ہونے سے پہلے ہسبنڈ یا وائف کو پتہ ہوتا ہے کہ میرا ہمسفر کیسا ہے اور وہ اسے پسند کرکے شادی کرتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ہر سال طلاق کی شرح میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ رشتوں میں احساس اور ایک دوسرے کا لحاظ کم ہو رہا ہے۔
فِمنزم کا نظریہ مَرد اور عورت کے درمیاں ایک مقابلے کا احساس پیدا کرتا ہے اور اس مقابلے میں وہ ایک دوسرے کا لحاظ بھول جاتے ہیں۔اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں دونوں شاید جیت جائے لیکن رشتے ہار جاتے ہیں۔فِمنزم کا سب سے بڑا دعویدار امریکہ ہے۔ جہاں نیویارک ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق ۵۹فیصد شادیاں آگے جا کے طلاق ہوجاتی ہیں اور صرف ۵فیصد شادی شدہ جوڑے ساری زندگی ساتھ ررہتے ہیں۔
فِمنزم کے اثرات صرف ازدواجی رشتوں تک محدود نہیں بلکہ آج کل تو بچے اپنے ماں باب کا بھی لحاظ نہیں رکھتے جنہوں نے اسے پال پوس کے بڑا کئے ہوتے ہیں۔
ڈپریشن اور دوسری ذہنی بیماریوں میں اضافہ
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ چترال کے لوگوں میں ڈپریشن اور دوسری ذہنی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔مظافاتی علاقوں میں اگر آپ جائے تو آپ کو ہر گھر میں ایک ایسا بندہ ضرور ملے گا جو کسی زہنی بیماری میں مبتلا ہو۔ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ کم علمی اور پسماندگی کی وجہ سے زیادہ تر مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔اکثر گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں میں کوئی جن بھوت آگیا ہے۔ایسا نہیں ہوتا وہ ایک ڈسورڈر ہوتا ہے جسے سیئکالوجی کی زبان میں ملٹپل پرسنالٹی ڈسورڈر کہا جاتا ہے۔جس میں انسان اپنے اندر ۲ یا اس سے زیادہ پرسنالٹیز ڈِویلپ کرتا ہے۔
ذہنی بیماریوں کے بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔لیکن میری سٹڈی کے مطابق ایک وجہ فِمنزم سوچ ہے۔ ہماری بہنیں ٹی وی اور موبایئل فون وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو وہ فِمنزم کے نظرئے سے متاثر ہوجاتے ہیں۔اور اس طرح ہمارے کلچرل رسٹرکشن، غربت اور پسماندگی کی وجہ سے جب ان کو ویسا بننے کے مواقع نہیں ملتے تو وہ ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ ہماری بہنوں کو موبایئل فون وغیرہ استعمال نہیں کرنا چاہے۔ بلکل استعمال کرنا چاہے کیونکہ ہر چیز پر ان کا حق بنتا ہے اور انہیں بھی جدید دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ اپنی زہنی صحت اور سوشل ویلیؤز کا بھی خیال رکھیں۔
مَردوں کی نظر میں خواتیں کا احترام کم ہو رہا ہے
اگر ہم چترال کی ہی بات کریں تو کچھ سالوں میں چترال میں بہت کچھ بدل گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ِبہیویئراور طرظ زندگی میں بھی بدلاؤ آگئے۔ذرا پانچ یا دس سال پیچھے جا کر دیکھیں۔ اس وقت خواتین کا جو احترام کیا جاتا تھا، کیا آج بھی ویسا ہے؟ کیا آپ کو کبھی آج کل کے ٹین ایج لڑکوں کے گروپ میں بیٹنے کا اتفاق ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو آپ کو پتہ ہوگا کہ لڑکیوں کے بارے میں ان کی آپس کی گفتگو کیا ہوتی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ فِمنزم کے دعویدار ممالک میں عورتوں کو کھلونا سمجھا جاتا ہے، اور ساتھ ہی توہین آمیز نام دئے جاتے ہیں جیسا کہ بِچ وغیرہ۔اور ہمیں یہ فلموں اور ویڈیوذ کے زریعے روز دکھایا جاتا ہے۔ یہاں کی خواتین جب ان کی طرح فیشن کرتے،ان کے لہجے میں بات کرتے نظر آتے ہیں تو مَردوں کی نظر میں وہ گر جاتے ہیں۔
بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہیں
آج کل سیکس سکینڈلز بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ خواتین کی عریان تصاویر سوشل میڈیا پر دھڑادھڑ شیر کئے جا تے ہیں۔کپلز کی پرایوئٹ لمحات کی ویڈیوز بھی وٹس ایپ اور یوٹیوب پر گردش کرتی نظر آتی ہیں۔لڑکیوں کے ڈانس کرنے کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہونا تو آم سی بات ہو گئی ہے۔
ذیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ٹکنالوجی میں ترقی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن اگر وجوہات کی بنا پر دیکھا جائے تویہ سب ٹکنالوجی کو استعمال کرنے کے نظرئے کی پیداوار ہیں۔
چترالی کلچر تبدیل ہوتی جا رہی ہے
فِمنزم کے اثرات چترالی کلچر پر بہت گہرے دکھائی دے رہے ہیں۔لوگوں میں نئی سوچ آنے سے چترال کی پرانی ثقافتین تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔اب زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں چترال کی اپنی ثقافت کو پسند نہیں کرنے لگے ہیں۔اور جو پسند کرتے ہیں وہ بھی ایک نئی اور ماڈرن نظرئے کے تحت تبدیلی چاہتے ہیں۔
اس نئے نظرئے کے نتیجے میں چترال میں کزن کلچر کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔جس میں کزن لڑکے اور لڑکیاں آپس میں ضرورت سے زیادہ فرینک ہوتی ہیں۔رشتہ قریبی ہونے کی وجہ سے والدین بھی ان کو روک ٹوک نہیں کر پاتے۔کزنز میں اس قربت کی وجہ سے لڑکوں کو لڑکیوں سے فلرٹ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔چاہیں جتنا بھی مثبت سوچ رکھ کے اس برائی سے نظر چرانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور یہ ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ ہم سوشیالوجی اور تاریخ کی گہرایوں میں نہیں جاینگے،دراصل یہ پہلے مغربی کلچر تھا۔پھر پنجابیون نے ان سے متاثر ہو کے اپنایا۔پھر یہ چترالیوں میں داخل ہو گیا۔
موسیقی چترال کی پرانی ثقافت ہے۔چترال کی موسیقی اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھی۔اگر بلواسطہ نہیں تو بلا واسطہ چترالی موسیقی میں بے جا تبدیلی کا فِمنزم سے تعلق ضرور ہے۔
کالاش قبیلے کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ الجزیرہ کی ایک ڈکومینٹری کے مطابق کالاش قبیلے کی آبادی میں کمی کی وجہ کالاش قبیلے کے خواتین کی اپنی کلچر کو پسند نہ کرنا اور ایک ماڈرن زندگی کا خواب رکھنا ہے۔اسی لئے وہ اسلام یا عِیسائی مذہب میں داخل ہو کر باہر کی دنیا میں منتقل ہو رہی ہیں۔
فِمنزم کو اگر محدود رکھا جائے تو اس سے اچھی چیز کچھ بھی نہیں۔مثلًا بچیوں کو تعلیم دینا،ان کے پورے حقوق ادا کرنا، ان کا خیال رکھنا، کھانا بنانے اور گھر کے کام کاج میں عورتوں کا ہاتھ بٹانا۔ خواتین کا احترام کرنا۔ خواتین کو نوکری کرنے اور معاشی خودمختاری کی اجازت دینا۔ یہ سب ان کے حقوق ہیں اور ان کو ملنی چاہیے۔لیکن اگر فِمنزم کا کانسپٹ ” میرا جسم میری مرضی“ کی حد تک بڑھ جائے تو اس کا ردعمل بھی ”میری آنکھیں میری مرضی“ کی صورت میں ہی آئے گا۔
انعام اللہ ایک لائیف سٹائل بلاگ چلاتا ہے۔ آپ ان کی اپنی بلاگ اس لنک پر جا کر وزٹ کر سکتے ہیں۔https://inspiredinam.info/

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button