سینیٹر طلحہ محمود سیاسی اور سماجی میدان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اپ 2003 میں جمعیت علما اسلام کے ٹکٹ سے ایوان بالا کا رکن منتخب ہوگٸے تھے۔جمعیت کی قیادت کا اپ پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اسوقت سے لیکر تا ہنوز سینٹ میں جمعیت کی بھرپور نماٸندگی کررہےہیں۔ایوان بالا کا رکن ہونے کے باوجود تنخواہ اور مراعات سے دستبرداری کا اعلان کرچکے ہیں کمیٹی چٸیرمین کیلٸے مختص گاڑی اور سیکیورٹی گارڈ لینا بھی گوارا نہیں۔پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین بھی اپ کا نام انتہاٸی ادب و احترام سے لیتے ہیں کیونکہ اپ سنجیدہ پروقار اور متانت و شرافت سے بھرپور اور مدلل انداز سیاست کے قاٸل ہیں۔مالی لحاظ سے اللہ نے اپکو خوب نواز رکھا ہے ۔اپنی بے پناہ دولت کی تجوریوں کا منہ غریبوں ناداروں بے سہاروں اور معذوروں کیلٸے ہروقت کھلے رکھتے ہیں۔اپ عرصہ 30 سال سے حالات اور ماحول کے مطابق سماجی میدان میں انسانیت کی خدمت انجام دیتے ارہے ہیں اور محمد طلحہ محمود فاٶنڈیشن کے نام سے والشفقة علی خلق اللہ کا عظیم فریضہ نبھاتے ارہے ہیں ۔علاقاٸی صوباٸی اور ملکی سطح پر ہر سال سیلاب اور زلزلہ ذدگان کی بھر پور خدمت و نصرت اپنا فرض منصبی گردانتے ہیں۔انسانیت کی خدمت کیلٸے بیساکھیوں کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور صاحب ثروت لوگوں سے فاٶنڈیشن کیلٸے چندے یا اعانت کی اپیل نہیں کرتے اپنی ہی ذاتی کماٸی سے حاصل شدہ مال و دولت اپنی ذاتی فاٶنڈیشن سے اپنے مخلص کارکنوں کے ذریعے غریب غربا تک پہنچاتے ہیں۔خلق خدا کی خدمت کے حوالے سے اپ ایک مضبوط نیٹ ورک کے مالک ہیں جس کا داٸرہ کار اندرون ملک تک محدود نہیں بلکہ شام برما لبنان اور کینیا تک پھیلا ہوا ہے نیز صومالین مہاجرین بھی اپکی شفقت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان کے متاثرین اور تھرپارکر کے بے یارومددگار بھی اپکو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔لیکن اتنی طویل دورانٸیے تک چترال سینیٹر صاحب کی نگاہوں سے اوجھل کیوں رہا ۔2002 سے 2019 تک چترال کے حوالے انکو بریف کیوں نہ کی گٸی اسکو ہم تساہل عامیانہ کہیں یا تجاھل عارفانہ ابھی تک ذہن اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے لیکن قربان جاٸیے حافظ انعام میمن کی فعال اور مخلصانہ کاکردگی اور جوش و جذبے پر کہ جنہوں نے طلحہ محمود صاحب سے دوران ملاقات حالیہ لاگ ڈاٶن کیوجہ سے کاروباری مندی کساد بازاری اور اسکے نتیجے میں غریبوں کی حالت زار کا کچھ اس دردمندی سے نقشہ کھینچا کہ سینیٹر صاحب نے فورا سے پیشتر 5000 گھرانوں کیلٸے 6000 روپے کی مالیت کا امدادی پیکیج کیساتھ جناب مبشر کو پراجیکٹ افیسر بنا کر روانہ کردیا۔جنہوں نے مولانا عبد الرحمان حافظ انعام میمن قاری جمال عبد الناصر مولانا عبد السمیع ازاد قاضی محمد نسیم محمد اصغر مفتی ضمیر عثمان الدین کے ساتھ مشاورت اور انکی طرف سے یوسی واٸز مستحقین کا نام فاٸنل کرانے کے بعد امدادی پیکیج کی تقسیم عمل میں لاٸی گٸی۔اب مزید پیکیج لیکر سینیٹر صاحب بنفس نفیس چترال تشریف لاچکےہیں اور اس سلسلے میں ایک پروقار تقریب اج پیریڈ گراٶنڈ میں سماجی فاصلے پر عمل کرتے ہوے انعقاد کیاگیا تھا جسمیں 200 گھرانوں کو 6000 روپے مالیت کی امدادی پیکیج سے نوازا گیا۔ گیٹ کے باہر عوام کا جم غفیر دیکھ کر سینیٹر صاحب نے انہیں بھی خالی ہاتھ جانے نہیں دیا اور فاما الساٸل فلا تنھر پر عمل کرتے ہوے انکو بھی فی کس 3000 روپے نقد انعام سے نوازا۔اسطرح اج ہی بکراباد موریلشٹ اور اپر چترال کے مستحقین میں امدادی پیکیج اپنے ہاتھوں تقسیم کریں گے۔اپر چترال کے مولانا شیر کریم شاہ مولانا فتح الباری مولانا فتح الباری اور حفیظ چترالی اس حوالے سے قاٸدانہ کردار بخوبی نبھاٸے لیکن مولانا فتح الباری معتمد خاص کے طور پر سیاسی اور سماجی سکرین پر نمایاں رہے۔بحرحال ہم اہل چترال جناب طلحہ محمود انکے فرزند ارجمند انکی پوری ٹیم اورپراجیکٹ افیسر مبشر کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہیں خصوص مبشر نے بہت ہی عمدہ کاکردگی کا مظاہرہ کیا اور میمن صاحب کا بھی کہ جنکی انفرادی کوششوں سے یہ سب کچھ بفضل اللہ ممکن ہوا۔۔
Facebook Comments