تازہ ترینمضامین

دادبیداد….علم اورمطالعہ…..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

بےس برس قبل تک کتاب زندگی کا ایک نہایت اہم جزو ہوا کرتی تھی‘کسی سکول کے طالب علموں کو ستونوں سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں ہیری پوٹر کی کتاب اور دوسرے ہاتھ میں لنچ دیکھا جاتا تھا۔ گھر پر بڑی عمر کے افراد شام کو ناولوں یا رسالوں میں غرق ہوتے یا رات کے کھانے کے بعد باآواز بلند غالب یا اقبال کے اشعار پڑھتے امریکہ کے پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق 1978ءسے لےکر اب تک مطالعے کا یہ رجحان کم ہوتا دیکھا گیا ہے حتیٰ کہ سکولوں کے وہ طلبہ جنہیں پہلی جماعت میں مطالعہ کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے‘ وہ بھی چوتھی کلاس سے پہلے ٹھیک طرح سے تحریر کو پڑھ نہیں پاتے۔ افسوس کےساتھ مطالعے کی کمی دماغی خلیوں پر بدترین اثرات‘ ہم گدازی‘ خود اعتمادی اور جذباتی ذہانت میں کمی کا باعث بنتی ہے جبکہ والدین اور بچوں کا خیال رکھنے والے دیگر افراد اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں‘مطالعے کے عمل میں ضروری نہیں صرف اور صرف کتابیں ہی شامل ہوں لیکن کم از کم اخبار یا کالم پڑھنے کےلئے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی جائے چونکہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا اسلئے اتنا مطالعہ بھی ان کےلئے کافی ہوگا۔ بہتر انداز میں اور مستقل مزاجی کےساتھ مطالعہ موجودہ اور ماضی کے حالات سے واقف رکھتا ہے‘ساتھ ہی ثقافتی آگاہی میں اضافہ اور خود اظہاری کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے‘ وہ طالب علم جن کے ذہن پر صرف کورس ورک ہی سوار رہتا ہے وہ بھی تحریر میں اور مناسب لفظوں کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرپاتے‘ چند میں تو خود اعتمادی کی بھی کمی ہوتی ہے۔ یہ قابل فہم بات بھی ہے کیونکہ وہ مختلف خیالات و عزائم اور لفظوں کے ذخیرے تک رسائی سے عاری ہوتے ہیں‘ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مطالعہ ہی سکھاتا ہے کہ کس طرح چلنا ہے‘ کس طرح دوڑنا ہے اور کس طرح اڑنا ہے‘ بدقسمتی سے مطالعے میں کمی کی وجہ سوچنے کے طریقوں میں تبدیلی اور سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کا ابھار ہے اور اس کمی نے بچوں اور بالغوں دونوں کو ہی بڑا نقصان پہنچایا ہے‘آج کے اس مسابقتی ماحول میں والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیںبلکہ یوں کہئے کہ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ٹیسٹ اور امتحانوں میں زیادہ سے زیادہ نمبر اٹھائیں۔ توجہ بچے کے گریڈ پر تو دی جاتی ہے لیکن اس کے حاصل کردہ علم پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ لہٰذا اضافی مطالعہ جو بچے کو اس کے سکول ورک سے بھٹکا سکتا ہے اسلئے اسے غیر ضروری اور بے فائدہ تصور کرلیا جاتا ہے‘جب طلبہ کو مطالعے کےلئے کتابوں کی فہرست تھمائی جاتی ہے تو انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں اوران میں چند سوال کرتے ہیں کہ لیکن اِن غیرنصابی کتابوں کا مطالعہ ہمیں بہتر گریڈ لانے میں کس طرح مددگار ثابت ہوگا؟ جس کا جواب یہ ہے کہ پڑھو اور پھر دیکھو‘اور پھر ہر گزرتے ماہ کےساتھ انکے کام بلکہ ان کی شخصیت میں بھی مطالعے کا اثر نظر آنے لگتا ہے‘ کتابیں بہتر گریڈ لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن ہمیں بہتر مطالعے پر توجہ علم و آگاہی کےلئے دینی چاہئے نہ کہ صرف بہتر گریڈز کےلئے‘ وہ والدین جنہوں نے سوچنے کے طریقوں میں تبدیلی کے باوجود خود کو اس تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے۔ انکے لئے سب سے بڑا دشمن سوشل میڈیا کی صورت میں موجود ہے ‘پچھلے سال ستمبر میں امریکہ کے معروف جریدے دی اٹلانٹک نے ایک مضمون شائع کیا‘ جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سوشل میڈیا کے ابھار نے مطالعے کے مشغلے کو منفی انداز میں متاثر کیا ہے اور تنہائی میں مطالعے میں غرق ہونے کے مشغلے یا کتابوں سے ملنے والی ثقافتی‘تاریخی اور اخلاقی تعلیمات کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بجائے اب ہم مطالعہ ایسے کام کے طور پر لیتے ہیں‘ جو صرف اور صرف ٹیسٹ اور امتحان پاس کرنے کےلئے ضروری ہوتا ہے‘ کلاس میں کبھی کبھی طلبہ کو انکا فون استعمال کرتے ہوئے اکثر پکڑا جا سکتاہے جنہیں شیکسپیئر کے ہےملٹ سے زیادہ اپنے فیس بک پر ملنے والے لائیکس میں دلچسپی ہوتی ہے!‘ہمیں خود کو بچانے کےلئے کتابوں کی ضرورت ہے‘ تاکہ ہم اپنے اندر مطلوبہ علم و فہم اور حوصلہ پیدا کریں‘ جو ہمیں خود سے باوفا رکھنے میں مدد کرے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ مطالعے کو ایک کام کے بجائے ترجیح بنائیں۔ والدین خود مطالعہ کرکے بچوں کےلئے مثال بنیں‘ماہانہ کتاب یا روزنامے کا بندوبست آسانی سے ہوسکتا ہے‘ بچے سزاو¿ں اور ڈانٹ ڈپٹ سے زیادہ بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں‘ چھوٹے بچوں کو ابتدائی مرحلے میں ہی مطالعے کا مشغلہ اختیار کرلینا چاہئے تاکہ بڑھتی عمر کےساتھ مطالعے کی عادتیں مزید پختہ ہوسکیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

یہ بھی چیک کریں
Close
Back to top button