
کرونا وائرس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ، کسی بھی ملک کے پاس کوئی ویکسین یا کوئی دوا نہیں ، نہ ایٹم بم والے محفوظ ہیں نہ عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے سب کے سب کرونا کے آگے بے بس ہو چکے ہیں ۔ انسان اس حقیر وائرس کے سامنے اس لئے بے بس ہوا ہے کیونکہ اس نے اپنے رب سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے ، چین کے پاس سب کچھ ہے مگر اللہ تعالیٰ سے دور اختیار کی ہے ، امریکہ دنیا کا چوہدرہ تھا اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے جنگیں برپا کرتا لیکن آج بے بس ہے ۔ بھارت نے کشمیریون پر لاک ڈاون مسلط کیا آج خود بھارت لاک ڈاون کا شکار ہے ۔ پاکستان میں ایک مرد مومن کی حکومت ہے اس لئے پاکستان محفوظ ہے جس وائرس نے دنیا میں لاکھوں لوگ مار دئے پاکستان میں ناکام ہو گیا ۔ یہاں بازار کھلے ہیں کسی کو وائرس کا خوف نہیں ہے کیونکہ وائرس نے پاکستان کو کچھ نہیں کہنا ۔ پاکستان حکومت کی بروقت اقدامات کی وجہ سے ہم دوسروں کے مقابلے میں محفوظ ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے کاموں اور مذہبی تہوار کو محدود طریقے سے وادی کالاش میں میں منائیں ، ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کلاش بزرگوں سے بات چیت کے بعد تہوار کو سادگی سے منانے کی اجازت دی گئی ہے وادی کالاش میں آباد کلاشی لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کر تے ہوئے اس تہوار کو محدود طریقے سے اپنی مذہبی رسومات کے ساتھ منائنگے اور پاکستانی ہونے کا ثبوت دینگے انسان کا اور انسانیت کا ثبوت دینگے ، سب کو جان پیاری ہیں سب چاہتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس سے متاثرہ نہ ہوں۔ ہم ایک دوسرے سے فاصلے رکھنگے ہم پاکستان کے شہری ہیں اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے جب ملک میں بگاڑ پیدا ہوتی ہے ہے کسی شہری کی وجہ سے وہ اس کا زمہ دار ہے یہ سب جانتے ہوئے بھی کون اپنے آپ کو اور ملک کو محفوظ رکھنے سے عاری ہو سکتے ہیں ، مگر آج کل کچھ مقامی لوگوں کی طرف سے کلاش لوگوں کے مذہبی تہوار چلم جوشی پر تنقید کی جا رہی ہے اور کرونا کا نام لے کر اس تہوار کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ۔ اس تہوار کو مذاق بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لاہور کے انار کلی بازار میں اور اچھرہ بازار میں ہزاروں لوگ شاپنگ کر سکتے ہیں تو کیلاش لوگوں کے تہوار سے کسی کو کیا تکلیف ہے ۔ سوشل میڈیا پر کیلاش تہزیب کے مخالف لوگ عجیب وغریب تبصرے کر رہے ہیں ۔ پاکستان بھر میں پاکستانی اپنے اپنے مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں عبادت کر رہے ہیں عبادت خانوں میں جا رہے ہیں حکومت نے کسی کو مسجد جانے سے نہیں روکا ہے عبادت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مگر جب کیلاش تہوار کی بات آتی ہے تو اس پر پابندی عائد کرنے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ ہم بے بس ہیں جو کرنا چاہیے ہم پر کر سکتے ہیں اور کرتے بھی آ رہے ہیں ہم مجبور ہیں اگر ہمارے بس میں ہوتا تو ہم اپنے تہوار خود مناتے مگر کیا کریں ہمیں نمائش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے تہواروں میں دوسرے لوگوں کی شرکت پر پابندی عائد کی جاتی تاکہ ہم آزادی سے تہوار منا سکیں لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں ۔ کیلاش والوں کے روائتی تہوار میں دوسرے لوگ صرف ہماری خواتین کو دیکھنے کیلئے شرکت کرتے ہیں لیکن ہمارے بس میں نہیں کہ انہیں چلے جانے کا کہہ سکیں ۔مگر اتنے لوگ شرکت کرتے ہیں کہ ہم وہاں سے چلے جاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ہم انہیں وہاں سے جانے کا کہے اور تہوار کو اکلیے اور اچھے طریقے سے منا سکے ، ہم تعداد میں کم ہیں اس لیےہم بے بس ہیں ، ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نفرت نہیں آپس کی محبت و اتحاد کے خواہاں ہیں ،ہم سمجھتے ہیں کہ عبادت ہی ہمیں ان وباؤں سے محفوظ رکھے گی بالکل اس طرح جس طرح مسلمانوں کے علما کہتے ہیں کہ عبادت سے وائرس کا ختم کیا جا سکتا ہے ۔ ہم کچھ دنوں سے وادی کالاش میں آباد کلاش لوگوں کو نشانہ بنانے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ رہےہیں ، کیا ہمارا کوئی مذہب نہیں ہے ، کیا ہمارا تہوار کوئی جشن ہے جسے چاہیں تو منایا جائے نہ چاہیں تو نہ منایا جائے ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ شندور کا جشن یا کسی ٹورنامنٹ کا جشن ہے ، یہ باتیں چھوڑ دو ، ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ہمیں اجازت ملی ہے اور ہمیں ہدایت بھی کی گئی کہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے کیا احتیاط کرنا ہیں ۔ ہم حکومت کی ہدایات پر مکمل عمل کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سادگی سے اس تہوار کو منائیں ، محدود طریقے سے اپنی مذہبی رسومات ادا کریں ، ہم عقل سے پیدل نہیں ہیں ہم بھی علم رکھتے ہیں اور کرونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنائیں گے ، ہم بھی پاکستانی ہیں اور اپنے ملک کے لیے دعائیں مانگنا چاہیے ہیں ۔ ہمیں بھی اپنی روایات اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے ۔ کچھ لوگ ہم سے ہمارا حق چھیننا چاہتے ہیں ۔ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں اور ہم تعاون کریں گے ۔ یہ نہیں کہ آپ کسی کو کمتر سمجھ کر یا اقلیت سمجھ کر اس کے ساتھ امتیازی سلوک کریں