
دور حاضر کے محقق عالم دین جامعہ حسینیہ دیوبند کے استاذ علامہ طارق قاسمی کا حدیث پاک: جب ثریا ستارہ طلوع ہوتاہے تو ذمین پر وباٸی امراض ختم ہوجاتے ہیں: کی روشنی میں لکھی گٸی ایک اہم اور وقیع تحریر کا خلاصہ جو پاکستان کے مایہ ناز عالم دین جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث یادگار سلف شیخین کریمین کے جانشین مولانا فیاض سواتی کا پسند فرمودہ بھی ہے قارٸین کی نذر کررہا ہوں۔مسند احمد کی روایت ہے ۔عن عثمان بن عبد اللہ بن سراقہ قال:سالت عن ابن عمر عن بیع الثمار فقال:نہی رسول اللہ ﷺ عن بیع الثمار حتی تذھب العاھة فقلت ومتی ذاک:قال حتی تطلع الثریا : حضرت عثمان بن عبد اللہ بن سراقہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیع ثمار یعنی پھول کی بیع کے بارے میں حضرت ابن عمر سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ خضورﷺ نے بیع ثمار سے منع فرمایا ہے جب تک کہ أفت و مصیبت کا ڈر ختم نہ ہو جاٸے اپ نے پوچھا کہ یہ کب ہوگا تو اپ نے کہا جب ثریا ستارہ طلوع ہوجاٸے۔مسلم کی روایت ہے : عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ان رسول اللہﷺ نہی عن بیع النخل حتی یذھو وعن السنبل حتی یبیض ویامن العاھة نہی الباٸع والمشتری: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نےکھجور کو اسوقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک وہ سرخ یا ذرد نہ ہوجاٸے[ کیونکہ جب سرخی یا ذردی اسمیں اجاتی ہے تو سلامتی کا یقین ہوجاتاہے ] اور اسی طرح بالی جب تک سفید نہ ہوجاٸے اور أفت سے محفوظ نہ ہو جاٸے بیچنے سے منع فرمایا بیچنے والے کو بیچنے سے اور خریدنے والے کو خریدنے سے:: مذکورہ احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عاھة یعنی أفت و مصیبت طلوع ثریا تک رہتی ہے ۔عاھة کہتے ہیں أفت اور مصیبت کو جو کسی چیز کو معیوب اور خراب کردے۔حضرت ابن عمر نے عاھة کی تفسیر طلوع ثریا سے کی ہے ۔صاحب تفسیر سمعانی اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ھریرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جب صبح کے وقت ثریا طلوع ہوتا ہے تو اہل علاقہ سے أفت کو ہٹالیاجاتاہے۔خدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ عاھة سے مراد وبا طاعون اور مختلف قسم کی بیماریاں ہیں۔ ثریا ایک ستارے کا نام ہے ۔ثریا سات ستاروں کے مجموعے کا نام ہے چھ ان میں سے ظاہر ہیں ایک مخفی ہے۔بعض نے سات سے بھی زیادہ کا مجموعہ بتایاہے۔لوگ ثریا سے اپنی نظروں کا امتحان کرتے ہیں قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ اپﷺ ثریا کے تمام ستاروں کو دیکھ لیا کرتے تھے ۔ثریا صبح فجر کے وقت نکلتاہے۔عن ابی ہریرة رض : ما طلع النجم صباحا قط و بقوم عاھة الا رفعت او خفت: حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورﷺ نے فرمایا جب صبح کے وقت ثریا طلوع ہوتا ہے تو اہل علاقہ سے أفت کو اٹھا لیا جاتا ہے ۔امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ثریا کا طلوع مٸی کے مہینے کی گیارہ راتیں گذرنے کے بعد صبح کے وقت ہوتا ہے یعنی 12 مٸی کو۔حضرت ابوا العباس کہتے ہیں کہ میں نے طاعون اور وباٶں کے سلسلے میں جو روایات تلاش کیں اور تاریخی کتب اور تراجم کتب دیکھے تو میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ حدیث میں عاھة عام ہے اور اسطرح کے طاعون[ کرونا واٸریس] اور وباٶں کو شامل ہے۔اللہ رب العزت کی عادت مبارکہ جاری ہے کہ ثریا کے طلوع کے وقت اسطرح کی بیماری یا تو بلکل ختم ہوجاتی ہے یا پھر کم ہوجاتی ہے۔ ان شاء اللہ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کے اخر میں تقریبا 19 رمضان کا یہ بیماری اللہ کے حکم سے ختم ہوجاٸے گی۔لیکن یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسطرح کی أفات کے خاتمے کا سبب طلوع ثریا نہیں ہے بلکہ عادة اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالی طلوع ثریا کے وقت اسطرح کے امراض و أفات کو ختم فرما دیتے ہیں۔لہذا یہ عقیدہ رکھنا جاٸز نہیں ہے کہ یہ طلوع ثریا کیوجہ سے ختم ہوگا ۔ثریا ستارہ نومبر کے درمیانی[دوسرے] عشرہ میں صبح کے وقت ڈوبتا ہے ۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ معارف القران میں لکھتے ہیں کہ:: یہ تو ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے چاند سورج اور ستاروں میں کچھ ایسی خاصیتیں رکھی ہیں جو انسانی ذندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ان میں سے بعض خاصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا ہر شخص مشاھدہ کرسکتاہے مثلا سورج کے قرب و بعد سے گرمی اور سردی کا پیدا ہونا اور چاند کے اتار چڑھاٶ سے سمندر میں مدوجزر وغیرہ اور بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ انکے علاوہ بھی ستاروں کی گردش کے کچھ ایسے خواص ہوتے ہیں جو انسان کی ذندگی کے اکثر معاملات پر اثر ڈالتے ہیں ۔ایک انسان کیلٸے کسی ستارے کا کسی خاص برج میں چلے جانا مسرتوں اور کامیابیوں کا سبب بنتاہے اور کسی کیلٸے غموں اور ناکامیوں کا مگر انکو موثر حقیقی نہیں سمجھنا چاہیٸے موثر حقیقی تو اللہ تعالی ہی ہیں مگر اسنے ستاروں کو ایسے خواص عطا کردٸے ہیں اسلٸے دنیا کے دوسرے اسباب کیطرح وہ بھی انسان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ایک سبب ہوتے ہیں تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کا اصل سرچشمہ تو اللہ تعالی کی مشیت ہی ہے لیکن یہ ستارے ان کامیابیوں اور ناکامیوں کا سبب بن جاتے ہیں سو یہ خیال شرک نہیں ہےاور قران و خدیث سے اس خیال کی نہ تصدیق ہوتی ہے نہ تردید ۔لہذا یہ کچھ بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے ستاروں کی گردش اور انکے طلوع و غروب میں کچھ ایسے اثرات رکھے ہوں لیکن ان اثرات کی جستجو کرنے کیلٸے علم نجوم کی تحصیل اس علم پر اعتماد اور اسکی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنا ممنوع اور نا جاٸز ہے۔دعا ھیکہ رب کاٸنات ہم پر رحم فرماٸے اور اس افت سے ہمیں محفوظ فرماٸے اور اپنے حبیبﷺ کے صدقے اس وبا کو ختم فرماٸے امین یا رب العالمین۔