تازہ ترینمضامین

دادبیداد…ایک اور وباء کی آمد…..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

وبائیں بھی بدقسمتی کی طرح ہوتی ہیں۔بدقسمتی کے بارے میں انگریزی میں مقولہ ہے کہ”بدقسمتی اکیلے نہیں آتی“ہم کورونا کے نام سے پھیلنے والی وباء کے خوف کا شکار تھے کہ کئی دیگر وبائیں ہمارے پیارے ملک پر حملہ آور ہوگئیں اب ہم حیراں ہیں کہ کونسی وباء کو اولیت دی جائے پہلے کورونا کو شکست دی جائے یا عدلیہ اور انتظامیہ کی لڑائی کا خاتمہ کیا جائے؟پہلے کورونا کا خیال کیا جائے یا سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی باہمی لڑائی کو لگام دیا جائے؟پہلے حکومتی پارٹی اور حزب مخالف کی آپس میں دشمنی کا خاتمہ کیا جائے یا کورونا سے نمٹاجائے اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پہلے علماء کرام اور سرکاری حکام کی باہمی لڑائی کو ختم کیاجائے یا کورونا سے انسانی جانوں کی ضیاع کو روکنے کی تھوڑی سی فکر کی جائے۔دُکھ کی بات یہ ہے کہ سب کا مشترکہ دشمن کورونا ہے مگر کورونا سے لڑنے کو تیار کوئی نہیں۔سچ پوچھئے تو عدلیہ اور انتظامیہ کی لڑائی اب قانونی جنگ سے آگے بڑھ کر ذاتی دشمنی کا روپ دھارچکی ہے۔اسی طرح حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی لڑائی بھی سیاسی اختلاف سے آگے گذرچکی ہے اب یہ ذاتی دشمنی ہے۔اس میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں سیاسی نظریات کی کوئی بات ہی نہیں اس طرح آپ قومی زندگی میں آنے والی ہرنئی لڑائی کو ایک اور وباء کانام دے سکتے ہیں اور یہ وبائیں اتنی اہم ہیں کہ ان کے سامنے کورونا اپنی اہمیت کھوچکی ہے۔کورونا بالکل پس منظر میں چلاگیا ہے۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ہرجگہ عدلیہ اور انتظامیہ کی باہمی لڑائی کا چرچا ہے اس لڑائی کی بنیاد ایک ایسا مقدمہ ہے جس کا کوئی مدعی نہیں۔کسی نے عدالت میں مقدمہ دائر نہیں کیا۔عدالت اس مقدمے کو اولیت دے رہی ہے حالانکہ عدالتوں میں 23لاکھ مقدمات گذشتہ 25سالوں سے زیر التوا پڑے ہیں۔25سال لکھنے کے بعد خیال آیا کہ بعض مقدمات 40سالوں سے التوا کا شکار ہیں۔عدالت وہ اختیارات استعمال کرکے خود نئے مقدمات بنارہی ہے جس کو ازخود نوٹس یا”سوموٹو“ کہا جاتا ہے۔یہ وہ اختیار ہے جس کو عدالت کسی عوامی مفاد کے کام میں استعمال کرسکتی ہے اور اس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں مگر سڑک کے کنارے درخت کاٹے جارہے ہوں،کسی تاریخی عمارت کو گرایا جارہا ہو،کوئی شہری مقدمہ لانے کے لئے تیار نہ ہو تو عدالت از خود نوٹس لیتی ہے۔ہماری عدالت نے وزیراعظم کے روزمرہ کام کا از خود نوٹس لیکر مقدمہ بنایا ہے کہ وزیراعظم نے ڈاکٹر ظفر مرزا نامی شخص کوکابینہ میں کیوں شامل کیا؟انگلینڈ،امریکہ اور عالمی ادارہ صحت سے ڈگریاں اور سرٹفیکیٹ لینے والے ڈاکٹر کے بارے میں سوال کرتی ہے کہ اس کی قابلیت کیا ہے؟گویا اصول،قانون اور آئین کی کوئی بات نہیں۔دو شخصیات کا ٹکراؤ ہے ایک شخص ہے جو دوسرے شخص کا دشمن ہے اوریہی دشمنی اس مقدمے کی بنیاد ہے حالانکہ ذاتی دشمنی اُس وقت تک مقدمے کی بنیاد نہیں بن سکتی جب تک فوجداری مقدمہ لانے کی نوبت نہ آجائے۔اب یہ شروعات ہے معاملہ آگے بڑھیگا”بات چل نکلی ہے دیکھئے کہاں تک پہنچے“وفاق اور سندھ حکومت کے باہمی جھگڑے کی بنیادبھی ذاتی دشمنی ہے وفاق میں ایک شخص ہے جو زرداری کا ذاتی دشمن ہے اس کو شبہ ہے کہ سندھ حکومت کا تعلق زرداری سے بنتا ہے اسلئے سندھ حکومت کو بھی دشمن قرار دیتا ہے۔یہ بات ہے جو جھگڑے کی بنیاد ہے۔اس میں کوئی آئینی اور قانونی نکتہ نہیں ہے۔پوری دنیا انقلاب کی زد میں آجائے،ملک میں کورونا کا راج ہوجائے یا سیلاب آکر نشیبی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے حکومت کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پوری کرنی ہے سندھ کے عوام کو اس بات کی سزا دینی ہے کہ انہوں نے زرداری والی پارٹی کو آخر کیوں کر ووٹ دیا،یہ ایسی دشمنی ہے جو دوستی میں بدل نہیں سکتی صلح کا کوئی امکان نہیں کیونکہ دل میں حسد اور بغض نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں یہ لاعلاج مرض ہے اور یہی حال علمائے کرام کے ساتھ حکومت کی آن بن کاہے۔علمائے کرام جو کچھ کہتے ہیں حکومت اس کے برعکس فیصلے کرتی ہے اور حکومت جو فیصلے کرتی ہے علماء کرام اُس کے خلاف ڈٹ کرباہمی ایکا کرکے میدان میں آجاتے ہیں۔یہ بھی ختم ہونے والی لڑائی نہیں اس میں بھی شخصیات کا شدید ترین ٹکراؤ ہے۔مفادات کی جنگ اور مفادات کیلئے دشمنی کا لامتناہی سلسلہ ہے یہ رومن بادشاہ اور چرچ کی لڑائی جیسا معاملہ ہے ایک اور وباء ان سب وباوٗں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے حزب اختلاف کے ساتھ حزب اقتدارکی لڑائی والی وباء۔اس وباء کے اندر بھی ذاتی دشمنیوں کی لمبی کہانیاں ہیں۔الف لیلہ کی یہ کہانیاں ہزار ہا راتوں سے بھی زیادہ مدت تک چلنے والی ہیں۔ان کہانیوں میں عمر وعیار کی زنبیل ہے اور اس زنبیل کے کئی عجائبات ہیں مثلاًدولاہوریوں کی آپس میں دشمنی ہے زمان پارک سے آنے والا ماڈل ٹاون سے آنیوالے کا جانی دشمن ہے۔آمنے سامنے بیٹھ کربات کرنے کا روادار نہیں وڈیو لنک پر مخالف کی بات سننے کا یارا بھی نہیں رکھتا۔سیاست میں ایسی بدترین دشمنی ہم نے کبھی نہیں دیکھی اور سیاست نام بھی دشمنی کا نہیں اختلاف رائے کو برداشت کرکے رائے دینے کانام سیاست ہے اس کا ایک اصول یہ ہے کہ”میں تمہارے رائے سے اختلاف مگر تمہیں اپنی رائے کو بیان کرنے کا حق دینے کیلئے اپنی جان دیدوں گا“کورونا وباء کی موجودہ صورت حال میں پاکستان کے اندر اختلاف رائے کوذاتی دشمنی میں بدل دیا گیا ہے۔ہمارے معاشرتی نظام کی ہر بیماری کو ایک اور وبا ء کی آمد کا نام دیا جائے توبے جا ہرگزنہ ہوگا اور کورونا کے سوا جتنی بیماریاں ہیں ان کا کوئی ویکسین نہیں اُن کی کوئی دوا بھی نہیں۔ان کو ویکسین یادوا دریافت ہونے کاامکان بھی نہیں کیونکہ دوائیں یورپی اور امریکی اقوام دریافت کرتی ہیں یا چین اور جاپان میں دریافت ہوتی ہیں۔وہاں ہمارے معاشرے کی بڑی وبائیں کھبی دیکھنے میں نہیں آئیں۔دوا کیسے دریافت ہوگی؟چنانچہ خدشہ یہ ہے کہ ایک اور وباء کی صورت میں یہ معاشرتی وبائیں ہمارے قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹتی رہنگی یہاں تک کہ یہ دیمک زدہ معاشرہ سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی کی طرح خود گرجائے گا ساتھ ہماری قومی حمیت کا جنازہ بھی نکال دے گا۔لیکن ٹھہرئیے مسلمان مایوس نہیں ہوتا،مایوسی کفر ہے ہمارے لئے اُمید کی ایک کرن یہ ہے کہ ملک کے نوجوانوں میں بے پناہ جذبہ ہے یہ لوگ ملکی زمام اپنے ہاتھ میں لیکر قوم کی ناؤ کو پارلگادینگے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button