تازہ ترینمضامین

دادبیداد….ٹائیگر فورس کے اُمیدوار…….ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

ٹائیگر فورس کے لئے وزیراعظم کے اعلان کوابھی 3دن ہوئے ہیں ایک لاکھ اُمیدوار آگئے ہیں 10اپریل درخواست دینے کی آخری تاریخ ہے اُمید وار بہت زیادہ ہیں ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہے مگر ملک کی82فیصد آبادی جو دیہات میں رہتی ہے پہاڑی وادیوں میں رہتی ہے وہ درخواست نہیں دے سکتی۔شہری آبادی میں بھی درخواست دینے کی سہولت سے محروم ہے۔کیونکہ درخواست دینے کے لئے ڈی ایس ایل،وائی فائی اور فورجی کی سہولت کے ساتھ انگریزی زبان میں مہارت بھی لازمی شرط ہے۔نوشکی،تھرپارکر،ٹوبہ ٹیک سنگھ،بٹگرام،تورغر اور چترال کے دیہاتی علاقوں میں نہ انگریزی جاننے والے ملتے ہیں نہ کمیوپٹر کی ایسی سہولتیں میسر ہیں۔چنانچہ ٹائیگر فورس میں لاہور،ملتان،کراچی،اسلام آباد،کوئٹہ اور پشاور جیسے بڑے شہروں کے نوجوان ہی جگہ پائینگے۔دیہاتی علاقوں کے نوجوانوں کو موقع نہیں ملے گا یہی حالدیہاڑی دار مزدوروں کی رجسٹریشن کا ہے۔شانگلہ،چترال،بونیر اور کوہستان کا مزدور کوئٹہ،کراچی،گوجرانوالہ یاگلگت میں مزدوری کرتا ہے۔محکمہ محنت کا دفتر صوبائی دارلحکومت میں ہے دیہاڑی دار کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں۔ملک میں لاک ڈاون ہے وہ بے چارہ کس طرح رجسٹریشن حاصل کرکے حکومت کے ریلیف پیکیج سے فائدہ اُٹھائے گی۔حکمران جو بھی ہوتا ہے وہ اپنے قریبی دوستوں اور مشیروں پر انحصار کرتا ہے۔اگر وزیر اور مشیر لندن،واشنگٹن،دوبئی اور نیویارک آئے ہوئے لوگ ہوں تو وہ بیٹھے بیٹھے فرض کرلیتے ہیں کہ ملک کی22کروڑ آبادی کے پاس انٹرنیٹ،سمارٹ فون،وائی فائی اور فورجی کی سہولت ہے۔ٹیویٹر اور فیس بک کی سہولت ہے۔اسلام آباد میں بٹن دباؤ تو چترال سے چاغی تک سب لوگ جواب دینگے۔ان مشیروں میں سے اکثر نے پاکستان کے پہاڑی اور میدانی دیہات نہیں دیکھے۔دیہات میں زندگی گذارنے والوں سے نہیں ملے۔ان کو یہ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کے پورٹل تک کتنی آبادی کی رسائی ہے؟ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ شہری بابو اور قومی رضاکار میں کیا فرق ہے؟یہی وجہ ہے کہ ان مشیروں کے منصوبے ضرورت کے وقت کسی کو نظر نہیں آتے۔آپ لاہور سے سوات تک سفرکریں۔شہر شہر،قصبہ قصبہ گھومیں آپ کو ملک ریاض کے لنگر جگہ جگہ ملینگے۔حکومت کا لنگر کہیں نظر نہیں آئے گا۔آپ کو حکومت کا شیلٹر ہوم نہیں ملے گا۔لاک ڈاون شروع ہونے کے بعد صحافیوں کے ایک گروپ نے فیصل آباد سے تیمرگرہ کا سفر10دنوں میں طے کیا۔اس گروپ کو الخدمت کا شیلٹر ہوم بھی ملا ملک ریاض کے لنگرملے۔حکومت کی طرف سے دی ہوئی سہولت جو اخباروں میں آئی تھی10دنوں کے سفر میں کہیں نظر نہیں آتی وجہ یہ ہے کہ مشیروں نے دروازے بند کرکے گوگل میپ کھول کرخیالی لنگر خانے اور خیالی شیلٹر ہوم قائم کئے۔وزیراعظم کو دکھایا اور کہانی ختم ہوگئی۔کورونا کی وبا آئی شہروں میں ٹرانسپورٹ اور ریستوران بند ہوئے تو دیہاڑی دار مزدوروں کو لنگر خانوں اور شیلٹر ہومز کی ضرورت پیش آئی۔ڈھونڈنے والوں کو ایک بھی نہیں ملا۔حکمرانوں کی دوقسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم بادشاہ اور فوجی ڈکٹیٹر کے نام سے پہچانی جاتی ہے دوسری قسم ان حکمرانوں کی ہے جو انتخابات کے ذریعے حکومت میں آتی ہیں یہ قسم جمہوری حکومت کہلاتی ہے۔بادشاہ اور ڈکٹیٹر کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتی۔یہ حکمران عوامی جذبات،احساسات اور ضروریات جاننے کے لئے سرکاری افیسروں کی رپورٹوں پر انحصار کرتے ہیں۔سرکاری افیسر اعلی تعلیم یافتہ اور بہترین تربیت یافتہ ہوتے ہیں وہ عوامی ضروریات اور احساسات یا جذبات کی درست ترجمانی کرتے ہیں۔اس کے مقابلے میں جمہوری حکمران اگر ذہین،ہوشیار اور عوام کا دکھ درد سمجھنے والے ہوں توسرکاری افیسروں کی رپورٹوں کے ساتھ ساتھ اضلاع اور یونین کونسل کی سطح پر اپنی پارٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں سے بھی رپورٹ مانگتے ہیں،ڈویژن اور صوبے کی سطح پرمیٹنگ کرکے ان رپورٹوں کاجائزہ لیتے ہیں۔اس طرح ان کے سامنے عوامی ضروریات اور مطالابت کا درست نقشہ آجاتا ہے۔قدرتی آفت کورونا سے مقابلہ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے ختم کرکے فنڈ اور وسائل ضلعی انتظامیہ کے ہاتھوں میں دے دئیے جائیں ضلعی انتظامیہ کے پاس گاؤں تک پہنچنے کانیٹ ورک ہے ویلیج ڈیفنس،ویلیج سکرٹریز اور زکوۃ چیرمینوں کا پورا عملہ ہے۔مستحقین کاریکارڈ ہے۔دیہاڑی داروں اور محنت کشوں کی فہرست بھی ایک ہفتے کے اندر مرتب ہوسکتی ہے۔گھر گھر امداد اور راشن آسانی سے پہنچایا جاسکتاہے۔انجمن ہلال احمر،لیویز اور پولیس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ایک لگا بندھا نظام اور سیٹ اَپ موجود ہے ہم یہ تاثر کیوں دے رہے ہیں کہہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ملک میں کوئی نظام کوئی ادارہ کوئی تنظیم نہیں ہے۔اس خلا کو پُر کرنے کے لئے ہم ٹائیگر فورس بنائینگے۔ان کو تربیت دیکر اضلاع اور دیہات میں کام پرلگائینگے تو عوام کو سہولت ہوگی ایرانیوں کا مشہور مقولہ ہے”تاتریاق از عواق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود“جب تک عراق سے دوا لائی جائیگی سانپ کا ڈسا ہوا مریض مرچکا ہوگا۔ہمارے سکول کے زمانے میں سید سجاد حیدر ریلدرم کا مضمون پڑھایا جاتا تھا”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ“آج اگر حکمران کا کوئی ہمدرد اس طرح کا مضمون یا انشائیہ لکھے گا تو اس کا عنوان ہوگا”مجھے میرے مشیروں سے بچاؤ“واقعی حکمران کو کامیاب یا ناکام کرنے میں مشیروں اور کیچن کیبنٹ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ٹائیگر فورس کے امیدواروں کی یہی دعاہے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button