تازہ ترین

ججز کے خلاف صدارتی ریفرنسز بدنیتی پر مبنی ہیں۔.اجتماع تماش بینوں کا نہیں، پکنک والوں کا نہیں بلکہ نظریے پر قربانی دینے والوں کا تھ

اسلام آباد(آوازچترال نیوز) جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججز کے خلاف صدارتی ریفرنسز بدنیتی پر مبنی ہیں۔ خیال رہے کہ بدھ کو آزادی مارچ  سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر قلب حسن اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد علی شاہ نے بھی خطاب کیا تھا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آزادی مارچ کے مطالبات میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف دائر ریفرنسز واپس لینے کا مطالبہ بھی شامل کریں۔ مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر اعلان کیا کہ مارچ کے شرکا وکلا کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔    اس موقع پر انہوں نے کہا کہ قوم ملک میں انصاف کی بالادستی چاہتی ہے۔ ’یک طرفہ احتساب نہیں چلے گا، اور  ججوں کے خلاف ریفر نس واپس لینا ہو گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جن ججوں کے فیصلے پسند نہیں آتے ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا جاتا ہے۔‘ ’ہمیں کہا جاتا ہے کہ عدالتی فیصلوں کا احترام کریں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ  کن فیصلوں کا، ایک فیصلہ شوکت عزیز صدیقی نے دیا اور اس کے بعد ان کا کیا حشر ہوا؟ اور ایک فیصلہ فائز عیسیٰ نے دیا جس کے بعد ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا اور حکومت اس فیصلے کے خلاف نظرثانی میں چلی گئی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ مراحل وہ تھے جب رات کو بارش برس رہی تھی اور آپ استقامت کا پہاڑ بن کر کھلے آسمان تلے کھڑے رہے۔‘   یہ حکمرانوں کے لیے پیغام تھا کہ یہ اجتماع تماش بینوں کا نہیں، پکنک والوں کا نہیں بلکہ نظریے پر قربانی دینے والوں کا تھا۔  ان کا کہنا تھا کہ ہم 12 ربیع الاول کے روز آزادی مارچ کو سیرت کانفرنس میں تبدیل کریں گے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کے جذبے کو سلام کیا۔ ملک کی معاشی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ’خدا نخواستہ‘ ان حکمرانوں نے اگلا بجٹ پیش کیا تو پاکستان کی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ ’اس لیے ہم یہاں ملک  بچانے کے لیے آئے ہیں۔‘ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ان نا اہل حکمرانوں کو ایک دن دینے دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button