تازہ ترینمضامین

انسان دوستی..تحریر: اقبات حیات آف بر غذی

“اپنے لئے جینا کیا جینا۔اگر جینا ہے تو دوسروں کے لئے جیو۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس پر پورہ اتر نا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہو تی اس کر دار کے حامل افراد جو معاشرے کے اندرخا ل خال ملتے ہیں اس دنیا سے ان کا نا تا ٹوٹنے کے بعد بھی یا د کئے جا تے ہیں۔ چونکہ انسان فطرتاََ خود عرض اور مطلب پر ست واقع ہوا ہے اور صرف اپنے اور اپنی اولاد کی دنیا سنوارنے میں مگن ہو نے کی بنا ء پر آوروں کی طرف رغبت اور دھیان دینے کے معاملے میں سر گرمی اور دلچسپی نہیں دکھا تا حالانکہ عبادات کی ادائیگی کی اہمیت سے قطع نظر جو درجہ، مقام اور رب کائینات کی رضا انسانیت کی خدمت گذاری کو حاصل ہے اس کا کوئی متبادل نہیں۔ بقول اقبال درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ اطاعت کیلئے کم نہ تھے کروبیاں اس مسلمہ حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسانی زندگی کا ایک دن اختتام یقینی ہے اس کے بعد کے طویل سفر کے لئے گرانقدر توشے کی حیثیت صرف اس عمل کو حاصل ہو تا ہے جو انسان زندگی کے سفر کے دوران دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کی صورت میں کر تا ہے کیونکہ مجبور انسانوں کی طرف سے کسی کے لئے دعا کے واسطے اٹھنے والے ہاتھ فیوض و بر کات سے خالی نہیں ہو تے اور زبان خلق نقار ۂ خدا کے مصداق درد دل رکھنے والے انسانوں کی نیا پار کر نے کا سبب بننے میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ عہد رفتہ میں دوسروں کی غمخواری معاشرے میں بدرجہ اتم مو جود تھی اور اس صفت کی وجہ سے ہماری معاشرتی زندگی لذتوں سے لبریز ہو تی تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے اقدار کی طرح یہ صفت بھی سرد مہری کا شکار ہو تی جا رہی ہے اور آج مفاد پر ستی اور خودغرضی کی وبا نے ان معاشرتی اوصاف کو مکمل طور پر دبوچ لی ہے، پھر بھی اللہ رب العزت کی یہ دنیا مکمل طورپر بھلائیوں سے محروم نہیں ہو گی اور انسانیت کی فلاح اور غمخواری میں سر گردان افراد کے تذکرے زبان زد عام ہو تے رہتے ہیں۔ چترال کی سطح پر اس قسم کے درمند اور بے لوث خدمتگار انسانوں میں جہاں اویر سے تعلق رکھنے والے کراچی میں مقیم شخصیت محترم قاری فیض اللہ صاحب کے اسم گرامی کو قلم کی نوک پر لا تے ہو ئے دل میں بہار کی کیفیت پیدا ہو تی ہے وہاں حال ہی میں ہم سے بچھڑنے والی دختر چترا ل محترمہ ڈاکٹر سلطانہ کی آوروں کے لئے جینے کی صفت کی مہک سے ہمارا معاشرہ معطر رہیگا۔ اپنی پوری زندگی ضرورتمندوں کے لئے سہارا بنے کے لئے وقف کر نے والی یہ مثالی خاتوں ڈاکٹر ی کے مقدس پیشے سے وابستگی کی بنیاد پر مسیحا کا کر دار ادا کر تی ہوئی خود اجل کے سامنے ہتھیار ڈال دی۔ آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کر ئے۔ آپ کی اس نا گہانی موت سے نہ صرف انکی دست شفقت سے مستفید ہو نے والے افراد ہی نہیں بلکہ سر زمین چترال کو ایک مثالی بیٹی سے محرومی کے صدمے سے دو چار ہو نا پڑا اور ساتھ ساتھ محکمہ صحت چترال کو ایک ہو نہار اور فرض شناس ڈاکٹر سے محرومی کا خلا پر کر نا ممکن نہیں۔ بحرحال اس فانی دنیا میں آنے اورجا نے کا سلسلہ جاری رہیگا اور اس سرائے میں قیام کی میعاد بھی معین ہے۔ عمر دراز گذار کر یہاں سے جانے والے بھی یہ ہی تصور لے کر جا ئے گا۔ آتے ہو ئے ازان تو جاتے ہو ئے نماز اس مختصر سے وقت میں آئے چلے گئے اس لئے عقل و خرد کے مالک انسان کو دنیا کے اس سٹیج پر اس ڈھنک سے اپنا کر دار ادا کر نا چاہئے جس سے یہ تصور ابھر تا ہوا نظر آئے۔ بارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو ایسا کچھ کر کے چلو یان کے بہت یاد رہو

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button