تازہ ترینمضامین

نواز شریف بنام کلثوم نواز…..محمد سعید اظہر

لاہور سے شائع شدہ ایک قومی معاصر نے نواز شریف کا ایک خط ان کی رفیقہ حیات کلثوم نواز کے حوالے سے شائع کیا ہے۔ یہ ایک طرح سے تاریخی دستاویز ہے مگر کیا یہ محض ایک تاریخی دستاویز ہی ہے یا اس خط کو کسی اور جہت یا جہتوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، ہمارا اس نقطہ نظر سے نظریہ ’’جہت اور جہتوں‘‘ کی تائید میں جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ کی داستان محض ایک قومی رہنما کے احساسات کا خط محض ایک پہلو تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے۔ پہلے آپ ہماری طرف سے اس خط کے چنیدہ چنیدہ حصے مطالعہ فرمائیں۔ میرا اور کلثوم کا سینتالیس برس کا ساتھ تھا۔ ساتھ بھی ایسا کہ جسے ایک دوسرے کو سمجھنے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے کا مثالی تعلق کہا جا سکتا ہے۔ اس سفر کے دوران اچھے دن بھی آئے۔ بہت مشکل اور کٹھن وقت بھی آیا۔ میں نے کلثوم کو ہمیشہ صابر، شاکر اور باہمت پایا۔ وہ بہت حوصلے اور بڑی سمجھ بوجھ والی خاتون تھی۔ اس دوران معلوم ہوا کہ احتساب عدالت نے کارروائی مکمل کر کے ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ ہم نے اپنے وکلاء کے ذریعے درخواست دی کہ چند دنوں کے لئے فیصلہ موخر رکھا جائے تاکہ ہم کچھ دن کلثوم کے ساتھ گزار سکیں جس کی حالت نہایت تشویشناک تھی۔ یہاں ایسی مثالیں ہیں کہ عدالتی فیصلے کئی مہینے تک محفوظ رکھے گئے لیکن ہماری درخواست مسترد کر دی گئی۔ 6جولائی کو احتساب کورٹ نے ہمیں لمبی قید کی سزائیں سنا دیں۔ اُدھر کلثوم کی حالت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ ہم جب سے لندن پہنچے تھے، کلثوم ہم سے اور ہم کلثوم سے کوئی بات نہیں کر سکے تھے۔ بات تو خیر کیا ہوتی کلثوم یہ بھی نہ دیکھ سکی کہ ہم اس کے سرہانے کھڑے، اُسے آواز دے رہے ہیں۔ فیصلہ آ جانے کے بعد میرے سامنے دو راستے تھے۔ کلثوم کی بیماری کا انکشاف اچانک ہوا۔ ہم سیاسی معاملات اور عدالتی کارروائیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ میری ’’انتخابی نااہلیت‘‘ اور وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کا فیصلہ آ چکا تھا جب کلثوم کی گردن کے نچلے حصے میں تکلیف بڑھنے لگی۔ اگست میں وہ چیک اپ کے لئے لندن گئی اور معلوم ہوا کہ اُسے کینسر کا موذی مرض لاحق ہو چکا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے دل دہلا دینے والی خبر تھی۔ یہ ایک قیامت تھی جو ہم پر گزر گئی۔ میں کئی سالوں پر پھیلی ہوئی بہت سی مشکلات اور مصیبتیں شاید بھول جائوں گا لیکن یہ گہرا زخم کبھی نہیں بھرے گا کہ میری سینتالیس سال کی رفیقہ حیات کینسر کے موذی مرض میں مبتلا زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی اور میں اس سے ہزاروں میل دور جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بے بسی کے عالم میں سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں کلثوم کس حال میں ہے۔ یہ تشنگی ایک آگ کی طرح میرے اندر سلگتی رہے گی کہ میں کلثوم کی زندگی کے آخری لمحات میں اس کے پاس نہ تھا۔ شریف فیملی اپنی زندگی کے جیسے دور سے گزر رہی ہے اس پہ زبان درازی کے لئے ایک خاص حوصلہ درکار ہے، ایسا حوصلہ انسانی کردار کی بدنصیبیوں میں شامل سمجھا جائے گا، اللہ کا ڈر ہمیں انسانیت کی حدود سے تجاوز ہونے سے روکتا ہے۔ یہ ہے ایک ایسا پہلو جس کا تعلق ہمارے اور ہمارے خالق کے درمیان ہے۔ ’’نواز شریف بنام کلثوم نواز‘‘ کے دوسرے پہلو کا تعلق اسی دنیا میں موجود ایک ملک پاکستان کی تاریخ سے بھی ہے جس کا آغاز 15اگست 1947کی صبح سے ہی ’’قومی سیاست اور قومی سیاستدانوں‘‘ کی توہین اور کردار کشی سے ہوا، جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے، آج بھی قوم نواز شریف، آصف زرداری، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمٰن جیسے سیاستدانوں کے اس بیانیے کی حامی ہے کہ ’’آئین کی بالادستی‘‘ ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ ہی میں پاکستان کی بقا ہے اور نواز شریف کے خط نے اس بیانیے کو اس وقت بھی اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا، جب ایک اور سینتالیس برس کی رفاقت ان کے سامنے دم توڑ رہی تھی۔ ان جان لیوا لمحوں میں نواز شریف کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ’’ایک طرف اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ میرا قلبی اور جذباتی رشتہ تھا دوسری طرف میں کسی قیمت پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ میں سزا اور جیل سے بچنے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کر رہا ہوں۔ میں نے دوسرے راستے کو چنا، یہ ہماری تاریخ کی واحد مثال ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا بازو تھامے وقتی لمبی قید کاٹنے واپس آ گیا ہو‘‘۔ نواز شریف نے جس تاریخ کی یاد دلائی، اس کا تذکرہ کالم کی گنجائش تمام ہونے کے باعث آئندہ پر ملتوی ہوا۔

 

 

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button