تازہ ترینمضامین

ڈیانا کو ایشیائی لوگوں سے پیار کیوں تھا؟

شہزادی تو وہ ہر لحاظ سے تھی ہی، لیکن انسان بہت عظیم تھیں۔ 1980 کے اوائل میں جب ایڈز کی بیماری سامنے آئی تو دنیا ایک خوف میں ڈوب گئی تھیں۔ چونکہ یہ نیا مرض لاعلاج تھا اور مریض کی قسمت میں محض سسک سسک کر مرنا تھا، لوگ اس بیماری میں مبتلا افراد کے قریب بھی نہیں جاتے تھے۔ مریضوں کو الگ تھلک رکھا جاتا تھا۔ چند برس بعد لندن میں ایڈز کے مریضوں کے لیے ایک ہسپتال کھولا گیا، لیکن یہ ہسپتال بھی صحت مند افراد کے لیے ایک خوف اور عبرت کی علامت تھا۔ ایک دن ایک سرخی مائل گلابی رنگت، سنہرے بالوں، درازقد والی انتہائی خوبصورت اور پر کشش مغربی خاتون اپنے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ سجائے اس ہسپتال آ پہنچیں۔ بستر پر پڑے ایک نحیف مریض کے پاس جا کر بے تکلفی سے ہاتھ آگے بڑھایا اور مریض سے پوچھا، ’ہاؤ آریو فیلنگ ناؤ؟‘۔ وہ جھنیپ گیا اور اپنی مہمان کے ساتھ آنے والے لوگوں کی طرف دیکھنے لگا۔   کیونکہ وہ کوئی عام خاتون نہیں تھیں۔ وہ اپنے عہد کی مقبول اور محبوب ترین شہزادی تھیں۔ شہزادی لیڈی ڈیانا! لیڈی ڈیانا، جو شہزادی نہ بھی ہوتی تو بھی شہزادی کی ایک مجسم تصویر تھی۔ جس کا عکس دیکھنے پر اس کو نہ جاننے والے بھی اس کو شہزادی ہی سمجھتے تھے۔ اس کو دیکھنے والے بچوں نے بچپن میں جب بھی کسی شہزادی کی کہانی سنی، ان کے ذہنوں میں شہزادی ڈیانا کی ہی شبہیہ ابھری۔ دیومالائی کرداررکھنے والی، کروڑوں دلوں کی دھڑکن اور نظروں کی تمنا، شہزادی ڈیانا نے جب ایڈز کے اس قریب المرگ مریض سے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو ان کا سٹاف لپکا، کیونکہ شہزادی نے اس وقت روایتی دستانے بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔ ڈیانا نے انہیں روک دیا۔ مریض سے ہاتھ ملایا اور بے تکلفی سے اس کے ساتھ اس کے بستر پر بیٹھ  گئی۔ اس کی یہ تصویریں میڈیا پر نشر ہوئیں تو اگلے ہی ثانیے ایڈز کے بارے میں دنیا کی سوچ بدل چکی تھی۔ صرف ایڈز ہی نہیں، ڈیانا نے جزام کے مریض بچوں کو بھی گود میں اٹھایا اورافریقہ کے سیاہ فام قحط زدہ بچوں کے ساتھ کھانا کھایا، پاکستان میں کینسرکے متاثرہ بچوں کی دلجوئی کی۔ اس نے دنیا کے ہر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کے شخص کو گلے لگایا۔ ایک دنیا اس کو چاہتی تھی۔ مغرب ہو یا مشرق وہ ہر جگہ یکساں محبوب تھی۔ یکم جولائی 1961 کو انگلستان کے شہر سینڈرنگھم میں جان سپنسر کے ہاں پیدا ہونیوالی ڈیانا کا خاندان، شاہی خاندان کی ایک اگلی شاخ تھی۔ ڈیانا نے برطانیہ اور سوئزرلینڈ کی درسگاہوں میں اعلٰی تعلیم حاصل کی۔ اوائل جوانی میں پیانو بجانا، تیراکی اور بیلے ڈانس ان کا شوق تھا اوردوسروں کے کام آنا جنون۔ لیڈی ڈیانا کے والد نے پارک ہائوس نامی گھر جو کہ ملکہ الزبتھ کی ملکیت تھا، کرائے پر لے رکھا تھا۔ ڈیانا اپنی بہن سارہ کے ساتھ اسی گھر میں جوان ہوئیں۔ ایک روز اپنے وقت کے مقبول شہزادہ چارلس پارک ہاؤس گئے تو ڈیانا کو ایک نظر دیکھتے ہی دل ہارگئے۔ اس وقت ڈیانا بیس برس کی بھی نہیں تھیں اور چارلس تینتیس کے تھے۔ 29 جولائی 1981 کوان کی شادی ہوگئی، یہ دنیا کی سب سے یادگار شادی تھی۔ جسے ’فیری ٹیل میرج‘ اور’میرج آف دی سنچری‘ بھی کہا جاتا ہے، اسے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے براہ راست نشرکیا اور کروڑوں لوگوں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ یہ دنیا کی واحد شادی تھی جس کی رسومات میں چھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ ایک سال بعد پرنس ولیم اور 1984 میں ہیری کی پیدائش کے بعد چارلس اور لیڈی ڈیانا کے تعلقات میں کچھ تنائو اس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب کمیلا پاریکر نامی خاتون چارلس کے قریب ہوئی اور ان کا رویہ لیڈی ڈیانا سے سرد ہوتا چلا گیا جسے ڈیانا نے واضح طور پر محسوس کیا۔ اگست 1996 میں ان کے بیچ طلاق ہو گئی۔ یہ گویا ڈیانا کے لیے برسوں کے کرب سے آزادی تھی۔ کمیلا کی ان کی شادی شدہ زندگی میں مداخلت کے بعد نہ صرف ان کا خاندان ٹوٹ گیا، اندر سے وہ خود بھی ٹوٹ گئیں۔ شادی ختم ہوئی تو گویا گھٹن بھی ختم ہو گئی۔ انہوں نے اپنی فلاحی سرگرمیاں مزید تیز کردیں۔ چارلس سے علیٰحدگی کے بعد بھی ڈیانا کا کرشمہ کم نہیں ہوا، وہ اسی طرح دنیا کی محبوب ترین ہستی رہیں۔ انہوں نے بے گھر افراد، بے سہارا بچوں، نشے کے شکار افراد کے لیے یادگار خدمات انجام دیں انہوں نے بارودی سرنگوں پر پابندی کی مہم بھی چلائی اور اوٹاوا معاہدہ کرایا۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایک ایسا نظام چاہتی ہوں جہاں میرا عوام سے زیادہ سے زیادہ رابطہ رہے۔‘ ڈیانا نے دنیا بھر کے دورے کیے اور ہر ملک کے باشندوں سے دوستیاں کیں۔ وہ دنیا کے امیر ترین، مشہور ترین اور وجہیہ ترین مردوں کی چاہت تھیں۔ لیکن چارلس کے بعد ڈیانا کی محبت کے قصے جن لوگوں کے ساتھ عام ہوئے وہ مغربی نہیں بلکہ مشرقی تھے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حسنات اور مصر کے دودی الفائد مختلف وقتوں میں ڈیانا کے محبوب رہے۔  موجودہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور دیگر ایشینز کے ساتھ بھی ان کی دوستی رہی۔ وہ عمران خان اور ان کی اس وقت کی اہلیہ جمائما خان کی دعوت پر شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے پاکستان بھی آئیں، اورفنڈزقائم کیے۔ ڈاکٹر حسنات خان پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر حسنات کا تعلق جہلم سے ہے۔ ان کا نام لیڈی ڈیانا کے ساتھ پہلی بار اس وقت لیا گیا جب ان دونوں کو 1995 میں ایک تقریب میں اکٹھے دیکھا گیا۔ ڈاکٹر حسنات نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ڈیانا ہرحال میں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ یہاں تک کہ اس کے لیے جادوگروں اور پیروں کی خدمات بھی حاصل کیں، وہ ایک بیٹی کی خواہش بھی کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ٹیلیگراف سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسنات نے کہا ’’وہ شادی کی خواہش مند تھی لیکن اس کے بعد کیا ہو گا اسے اس کی پروا نہیں تھی، میں اسے اکثر سمجھاتا کہ اس سے میری زندگی متاثر ہو گی لیکن پھر بیچ میں ڈوڈی الفائد آ گیا۔‘‘ ڈوڈی الفائد ڈوڈی الفائد مصر سے تعلق رکھنے والے ارب پتی محمد  کے بیٹے تھے۔ ڈیانا کی موت کے وقت وہ ان کے ساتھ تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر حسنات سے شادی میں ناکامی کے بعد ڈیانا ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔  ڈاکٹرحسنات کا کہنا ہے کہ جس رات ڈیانا کا ایکسیڈنٹ ہوا وہ دیرتک انہیں فون کرتے رہے لیکن بات نہیں ہو سکی۔  لیڈی ڈیانااور چارلس کی تصاویر کا تنازعہ ڈیانا دنیا کی واحد خاتون ہیں جن کی سب سے زیادہ تصویریں کھینچی گئیں جن میں سے زیادہ تر چارلس کے ساتھ ہیں، وہ تصویریں سالہاسال اخبارات میں چھپتی رہیں، ٹی وی پر چلتی رہیں، ویب سائٹس پر آتی رہیں، سوشل میڈیا آنے کے بعد شیئر کی جاتی رہیں لیکن ان میں ایک ایسی ’غلطی‘ تھی جو کسی کی نظر میں کبھی آئی ہی نہیں، تاہم 2017 میں ایک ٹوئٹر صارف نے وہ راز پکڑ لیا، فلپ این کوہن نے دونوں کی کئی تصویریں ایک ساتھ شیئر کیں، جن میں میاں بیوی کھڑے تھے۔ ہرتصویر میں ڈیانا چارلس سے تقریباً چار پانچ انچ چھوٹی نظر آ رہی تھیں۔ اس کے بعد فلپ نے ٹویٹ میں پوچھا کہ دونوں کی قامت ایک جتنی ہے پھر ڈیانا کا قد چھوٹا کیوں لگ رہا ہے؟ میری کلیئر نامی برطانوی میگزین نے ان کی ایسی تصویر شائع کی جو پائوں تک نظرآ رہی ہے اور دونوں کا قد برابر لگ رہا ہے جس پر ٹوئٹر پر بحث ہوئی، اور سوال اٹھایا گیا کہ شاہی خاندان کو مصنوعی طور پرچارلس کو ڈیانا سے لمبا دکھانے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ ایک صارف نے لکھا کہ شاید شہزادے کو مردانہ وجاہت کے طور پر لمبا دکھایا گیا، ایک اور صارف کے مطابق قد کا لمبا چھوٹا ہونا کوئی ایشو نہیں تاہم اس کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرنا یقیناً تفریق کا مظہر ہے۔ ڈوڈی الفائد اور موت ڈاکٹر حسنات سے دوری کے بعد ڈیانا اگست 1997 میں ڈوڈی الفائد کے ساتھ پیرس میں تھیں۔  اس وقت ان کے اور ڈوڈی الفائد کے معاشقے کی خبریں عروج پر تھیں۔ لہٰذا ’پاپارازی‘ فوٹو گرافر ہر وقت ان کے تعاقب میں رہتے۔  22 سال قبل آج ہی کے روز جب وہ دونوں ہوٹل سے نکلے تو کچھ ’پاپارازی‘ تصاویر لینے کے لیے پیچھے لگ گئے اور ان کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگے۔ اسی دوران تیز رفتاری کی وجہ سے ڈیانا کی گاڑی کریش کر گئی اور وہ ڈوڈی الفائد کے ساتھ ہلاک ہو گئیں۔ وہ دنیا کی واحد شخصیت ہیں جن کی آخری رسومات میں دس لاکھ افراد نے شرکت کی۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button