تازہ ترینمضامین

دادبیداد….صحا فت زیر عتاب…..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹراکاونٹ پر رائے دیتے ہوئے مشہور امریکی اخبار نیویارک ٹا ئمز کو ”بُرا اخبار“ قرار دیا ہے انہوں نے نیو یارک ٹا ئمز پر مخا لف پارٹی ڈیمو کریٹس کی حما یت کا الزام لگا تے ہوئے کہا ہے کہ اخبار اپنی نا کا میوں کو چھپا نے کے لئے حکومت کی پا لیسیوں پر انگلی اٹھا تا ہے امریکی صدر نے اخبار کو بد ترین صحا فت کا نمو نہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اخبار کا طرز عمل امریکی تاریخ میں صحا فتی زوال کی بد ترین مثال ہے بظا ہر یہ بڑی بات نہیں دنیا کے تما م ڈکٹیٹر آزاد اخبارات کو اپنے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکی ری پبلکن پارٹی جمہوریت کا علمبر دار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے امریکی حکومت خود کو جمہوری حکومت قرار دیتی ہے اور جمہوریت میں آزاد ی اظہار پر قد غن نہیں لگائی جاتی اخبارات پر پا بندیاں نہیں لگا ئی جاتیں اخبارات کومعا شرے کا آئینہ سمجھا جا تا ہے معا شرے میں جو کچھ ہے وہ اخبارات میں دکھا ئی دیتا ہے ایران، ترکی، جا پان اور چین کے اخبارات میں زرعی تر قی، صنعتی پیدا وار، تعلیم و صحت کی سہو لیات کے حوالیے سے4کالمی اور 6کا لمی خبریں آتی ہیں یہ ان کی تہذیب ہے پا کستان کے اخبارات میں جنسی زیا دتی، اغوا، قتل، ڈکیتی اور دیگر جرائم کی خبریں شائع ہو تی ہیں کیونکہ ہمارے معا شرے میں یہی کچھ نظر آتا ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمارے اخبار بُرے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا معا شرہ تباہی سے دو چار ہو چکا ہے اگر کسی کو یہ بات پسند نہیں آتی تو وہ اخبار کو برا بھلا کہنے کے بجا ئے معا شرے کے سدھار پر تو جہ دے یہی درست راستہ ہے مگر خواجہ میر درد کہتا ہے ؎ ہر چند ہو ں آئینہ پر اتنا ہوں نا قبول منہ پھر لے وہ جس کے مجھے رو برو کریں سچی بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر ڈکٹیٹر نے اخبا رات پر پا بند یاں لگائی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکی صڈر کو منتخب جمہوری صدر کہا جا تا ہے حالانکہ امریکہ کا ہر صدر دو پیما نوں کے اعتبار سے ڈکٹیٹر ہی ہو تا ہے اقوام متحدہ میں 192ممبروں کے مقا بلے میں ویٹو کا حق استعمال کر کے امریکی صدر ہر دور میں جمہوریت کی نفی کرتا آیا ہے جمہوریت کا تقا ضا یہ ہے کہ سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین کو ویٹو پاور نہ دیا جائے تمام فیصلے اکثریتی رائے سے کئے جا ئیں اقوام متحدہ میں دوسرے مما لک جمہوریت کے حق میں ہیں امریکہ جمہوریت کو نہیں مانتا اس کے مخصوص مفا دات ویٹو پاور سے وا بستہ ہیں دوسرا پیمانہ بیرونی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا پیما نہ ہے اس حوالے سے امریکہ کی پا لیسی یہ ہے کہ غریب مما لک میں جمہوریت کی جگہ باد شا ہت یا فو جی آمریت کی حما یت کی جا ئے امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد 74سالوں میں 81غریب مما لک میں بار بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر فو جی ڈکٹیٹر وں کو حکومت دی ہے مصر میں محمد مر سی کی جگہ جنرل سیسی کو اقتدار میں لا نا اس کی حا لیہ مثا ل ہے ایسے مما لک کی تعداد 27ہے جہاں امریکہ نے 5سے زیا دہ بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر فو جی ڈکٹیٹر وں کو حکومت دی ایسے مما لک کی تعداد 31ہے جہاں امریکہ جمہوریت کی جگہ باد شا ہت کی حما یت کر تا ہے افغانستان میں امریکہ نے اس لئے داخل ہوا کہ وہاں باد شاہت کی جگہ جمہوریت آئی تھی ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی اُس دن شروع ہوئی جس دن باد شاہ کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور جمہوری طا قتیں اقتدار میں آگئیں ان دو پیمانوں کے ذریعے جانچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے دو چہرے ہیں ایک چہرہ جمہوریت کا دعویٰ کرتا ہے دوسرا چہرہ جمہوریت کی نفی کر تا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی اخبار کے خلاف جو بیا نا ت دیئے ہیں وہ دوسرے چہرے کی عکا سی کرتے ہیں دنیا کا ہر ڈکٹیٹر چاہتا ہے کہ میڈیا میں اس کی اجا زت کے بغیر پر ندہ بھی پر نہ مارنے پائے، ایک پتا بھی نہ ہلنے پائے اردو کے مقبول شاعر جاوید اختر کی ایک نظم اس طرح شروع ہو تی ہے ”ساری ہو ائیں، چلنے سے پہلے بتائیں کہ اُن کی سمت کیا ہے“ اسلامی تعلیمات میں ہمیں بتا یا گیا تھا کہ ”جا بر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہا دہے“ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جا بر سلطان کی اجا زت کے بغیر اس کے سامنے کلمہ حق کہنے والا ”گم شدہ افراد“ کی فہرست میں شامل ہو تا ہے تاہم ذرائع ابلاغ نے ہر دور میں ڈکٹیٹر وں کا مقا بلہ کیا ہے خفیہ منصو بوں کو منظر عام پر لا یا ہے اور پس پر دہ محر کات سے پر دہ اُٹھا یا ہے دور حا ضر میں صرف اخبارات پر ہی انحصار نہیں ہو تا، ٹیلی وژن، ریڈیو اور سو شل میڈیا نے بھی اپنی خا صی اچھی جگہ بنا ئی ہو ئی ہے یہ وہ جا دو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے اس لئے اخبارات پر پا بندی لگانا یا کسی اخبار کو بُرا بھلا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button