تازہ ترین

دھڑکنوں کی زبان … محمد جاوید حیات …استاد ۔۔ای ،سی، ای، ڈی کی کلاس میں

ی سی ای ڈی آج کل کی تعلیم و تعلم کے میدان کی ایک اصطلاح ہے ۔بہت بچپن میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے منصوبہ بندیاں ،ترتیب ،تنظیم اور کوششوں کو ای ، سی ،ای ڈی سسٹم کہتے ہیں ۔۔بچے کا ماحول ، اس کے گھر کا ماحول ، اس کا معاشرہ مد نظر رکھا جاتا ہے ۔دور اور وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔اس کی ذہنی نشوو نما کے ساتھ ساتھ اس کی مناسب تربیت شروع کی جاتی ہے کہ کہیں اس ’’اشرف‘‘ نام کی مخلوق کی تربیت درست نہج پہ نہ ہو اگر ایسا ہوا تو گلشن انسانیت پہ خزان آئے گی ۔کہتے ہیں اس کی تربیت تو ماں کے جسم میں رہنے کے دوران سے ہی شروع ہوتی ہے جب وہ اس میں پرورش پارہا ہوتا ہے۔۔ وہ پہلے سے ہی کچھ نہ کچھ لے کے دنیا میں آتا ہے ۔۔پھر کہتے ہیں کہ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو اس کے ذہن کی تختی نیم خالی ہوتی ہے ۔۔اس میں ہم کچھ نہ کچھ لکھتے جاتے ہیں ۔۔کیا لکھتے ہیں یہ سوال ہے۔۔ جس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے سر کھپائے جاتے ہیں ۔۔عمریں گنوائی جاتی ہیں ۔۔یہ بچہ ۔۔یہ عجوبہ ۔۔میں بھی بچہ تو بھی بچہ ۔۔یہی بچہ کل کا صدر ۔۔وزیر اعظم ۔جنرل پاسبان ۔۔یہی بچہ کل کا سائنسدان ۔ڈاکٹر ۔استاد ۔۔یہ بچہ مزدور ۔چور اچکا ۔۔ضدی نکھٹو ۔ششدرو حیران۔۔ ماں باپ کا نافرمان ۔۔گویا۔۔ کھیلاڑی ۔شاعر ادیب ۔دور کی تختی پہ ۔۔یادوں کی کتاب پہ اپنا نام لکھے ۔۔مٹانے سے یہ نام نہ مٹے۔۔ ۔زمین پہ رہ کے بھی چاند کہلائے ۔۔۔کردار کا دھنی ہو۔۔۔ لوگ اس کی کرشماتی شخصیت بھول کر اس کے کرشماتی کردار میں کھو جائیں ۔۔وہ دلوں کی دھڑکن بن جائے ۔۔یہ بچہ اب دو سال اور اٹھ سال کے درمیان ہے۔۔ ۔وہ تربیت کی کلا س میں ہے۔۔ یہ پی ٹی ڈی سی سی کا ٹریننگ سنٹر ہے ۔۔۔مختلف سرکاری سکولوں کے قابل ترین اساتذہ ٹریننگ پہ آئے ہوئے ہیں ۔ای سی ڈی کی کلا س میں بچہ بنتے ہیں ۔۔ان کی میم ان کی عظیم میم اس سمے ای سی ڈی کلاس کی استاد بنتی ہے ۔ان کی تربیت کرتی ہے ۔۔آتے ہوئے ان سب کو ایک ایک کرکے سلام کہتی ہے ۔۔۔سلام اور اداب انگریزی زبان میں ہیں ۔۔بچے گھروں میں کھوار بول چال کے ہیں ۔۔ماحول بدلا ہے۔۔ اس لئے وہ سر ہلاتے ہوئے میم کے سلام و کلام کا جواب ہنس ہنس کے دیتے ہیں ۔۔میم بہت اچھی ہیں ۔۔بہت ہی پیاری ۔۔اس کے چہرہ انور پہ محبت اور احترام جلوہ دے رہے ہیں ۔۔اس سمے وہ کچھ نہیں کر رہی ۔۔صرف گلشن انسانیت کے پھولوں سے پیار کر رہی ہیں ۔بچوں کے چہرے پھول کی طرح کھلے ہوئے ہیں ۔۔بچے سب کچھ بھول گئے ہیں ۔۔جس کو ناشتے میں کالی چائے ملی ہے ۔وہ بھی وہ چائے بھول گیا ہے ۔۔جس کو گھر سے نکلتے ہوئے ماں نے ڈانٹ پلائی تھی۔۔ اس کا ٹنشن بھی فرو ہو گیا ہے ۔۔جس کے جوتے پھٹے ہوئے ہیں اس کوبھی اپنے جوتوں کی پرواہ نہیں رہی ہے ۔۔میم کے لہجے میں بہت مٹھاس ہے ۔۔میم محبت کا سمندر ہے ۔۔ بچے ایک ایک کرکے اپنی کلاس میں داخل ہوتے ہیں ۔کلاس روم میں ہی دو لائنوں میں کھڑے ہوتے ہیں ۔باہر آج بارش ہے۔۔ یہاں پہ ہی مختصر اسمبلی ہوتی ہے ۔ ایک بچہ کمانڈر بنتا ہے ۔۔ایک بچہ تلاوت کرتا ہے ۔تین چار بچے گروپ میں قومی ترانہ پڑھتے ہیں۔۔ پھردعا پڑھتے ہیں۔۔اسمبلی ختم ہوتی ہے ۔۔بچے تین مختلف کلاسوں کے ہیں ۔۔میم نے ان کو اکھٹا بیٹھایا ہے۔ ۔مختلف مضامیں کے لئے مختلف مواد کمرے میں الگ الگ میزوں پہ سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں ۔۔میم بچوں کو بیٹھنے کے اداب بتاتی ہیں۔۔ ان کو ہدایات دیتی ہیں ۔میم کے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ بچوں کے دلوں پہ اثر کرتی ہے۔ پھر میم بچوں سے کہتی ہیں کہ بچو! کمرے میں تین میزوں پہ آپ کی دلچسپی کے سامان رکھے ہوئے ہیں ۔آپ اپنی مرضی سے گروپ بنا کے مختلف میزوں میں جاکے ان چیزوں کو دیکھئے گا۔۔ ان چیزوں کے نام ایک دوسرے سے پوچھئے گا ۔۔ان چیزوں کے بارے میں جتنا ہوسکے ایک دوسرے سے پوچھ کر معلومات حاصل کیجئے گا ۔چیزوں کوخراب نہیں کرنا ۔توڑنا نہیں ۔۔ایک دوسرے سے لڑنا نہیں ۔شرارت نہیں کرنا ۔۔بچے خو ش خوش اٹھتے ہیں ۔گروپ بناتے ہیں۔۔ اپنی پسند کی میزوں میں جاتے ہیں ۔ٰ اپنی پسند کی چیزوں کے نام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ۔ایک دوسرے سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں ۔فہرستیں بناتے ہیں ۔میم ان کی مدد کرتی ہے ۔۔بچے میم کی آواز سن کر پھر اپنی جگہوں پہ واپس آتے ہیں ۔میم پوچھتی ہیں کہ کس نے کیا سیکھا ۔۔بچے اپنے تجربات اور تعلم بتاتے ہیں ۔۔کسی نے اعداد سیکھا ہے۔ کسی نے اردو کی حروف تہجی سیکھی ہے ۔کسی نے پھول کے مختلف حصوں کے نام یاد کیا ہے ۔۔کوئی انسانی جسم کے مختلف حصوں کے نام گنگناتا ہے ۔۔سب خوش ہیں ۔۔سب کے چہروں پہ تجسس نمایاں ہے ۔۔ لگتا ہے کہ اور سیکھنا چاہتے ہیں اور بہت کچھ ۔۔بچے گھروں سے اپنے ساتھ کھانے کی کچھ چیزیں لائے ہوئے ہیں۔میم نے بھی اُن کے لئے کھانے کی کچھ چیزیں خریدی ہیں ۔اپ کھانے کا وقفہ ہے ۔ان سے کہتی ہیں بچو!آپ جو تھک سے گئے ہیں۔۔ ہلکی بھوک بھی لگی ہوگی ۔۔اب ہمیں ایک قطار میں باہر جانا ہے۔۔ کھانے کے اداب ہیں کہ ۔۔بچے چیخ کر کہتے ہیں۔۔ہاتھ دھونے ہیں ۔۔میم کواچھا لگتا ہے کہ بچے قطار میں باہر جاتے ہیں ۔۔ ہاتھ دھو کے آتے ہیں ۔۔۔اد ب سے بیٹھتے ہیں ۔۔ کھانا شروع کرنے کی دعا پڑھتے ہیں ۔۔ ۔۔۔آخر میں کھانا ختم کرنے کی دعا پڑھتے ہیں ۔۔پھر ان کی پڑھائی شروع ہوتی ہے ۔۔ان کی میم ہمہ وقت ان کے پاس ہے ۔۔دو گھنٹے کا یہ دورانیہ ختم ہوتا ہے ۔۔۔آج کی ای سی ڈی کلاس ختم ہو گئی ہے ۔۔میم نے بچوں کے کام ان کے ناموں کے ساتھ ایک باکس میں ڈالی ہے ۔اپنے کمرے کا جائزہ لیا ہے ۔۔سامان تریب سے رکھتی ہے ۔۔میم نے تین مختلف کلاسوں کو ایک وقت میں مختلف مضامین کی مشق کرائی ہے اور اس میں کامیاب ہوئی ہے ۔۔بچوں نے میم سے سیکھا ہے ۔۔خود کام کرکے سیکھا ہے۔۔ ایک دوسرے سے سیکھا ہے ۔۔کم وقت میں زیادہ کام ہوا ہے ۔پی ٹی ڈی سی میں یہ تجربہ کار اساتذہ جو ابھی بچے بن گئے تھے ۔۔پھر سے اساتذہ بن جاتے ہیں مگر روایتی نہیں ہیں۔۔جوش و ولولہ والے ۔۔پر عزم ۔۔مصصم ارادہ والے ۔۔میر کارواں ۔۔جدہ پیمائی کے لئے تیار ۔۔مستعد با صلاحیت ۔۔پی ڈی سی میں اساتذہ کی صورت میں جو شمع جلنے لگی ہیں ان کی روشنی پھیلتی جائے گی ۔۔اور چراغ جلیں گے ۔۔اور کوہ و دامن ،کاخ و کو ،پربت و کہسار ،دشت و صحرا ،جنگل بیابان ،گل و گلستان اور کون و مکان سب روشن ہو جائیں گے ۔۔ملک خداداد کو ایسے معماراں قوم کی ضرورت ہے جو میر کارواں بھی ہوں ۔۔
تو کیا پی ڈی سی سی کی کوششیں قابل ستائش نہیں ہیں ۔یقیناًقابل صد تعریف ہیں ۔۔ ٹریننگ دینے والے یہ باصلاحیت اساتذہ سر سبز و شاداب رہیں ۔
اقبال کا ترانہ بانگ دراء ہے گویا
ہوتا ہے جدہ پیما پھر کارواں ہمارا

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button