تازہ ترین

داد بیداد … ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی … آگے کیا ہو گا ؟

ہال میں لیکچرتھا مو ضوع خشک تھا مگر سامعین کے سوا لات نے اس کو دلچسپ بنا دیا فا ضل مقر ر پا کستان میں آئینی اصلا حا ت کے ار تقا ئی عمل پر بول رہا تھا آٹھویں تر میم ، ستر ھویں تر میم اور اٹھا ر ویں ترمیم زیر بحث آئے سوا لات بے شمار تھے تاہم تیکھا اور ٹیڑ ھا سوال یہ تھا کہ آگے کیا ہے ؟ اور کیا ہو گا ؟فا ضل مقرر نے کہا یہ بات صرف نجو می ہی بتا سکتا ہے تا ہم قرائن ، شواہد اور حالات کی روشنی میں ایسی پیشگوئی کی جا سکتی ہے جیسی پیشگوئیاں قرآن اور حدیث میں صا لح اور نیک لو گوں کے انجام یا فا سق، فا جر اور مشرک یا کا فر لو گوں کے انجام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں مثلاً اُن کے کا نون پر دبیز پر دہ ہے دل پر کا لا مہر ہے یہ ایمان لانے والے نہیں مثال کے طور پر جن لو گوں نے دنیا کی لذّتوں کو اللہ کی رضا کے لئے قربان کیا وہ آخرت کی زندگی میں جنت کے حقدار ہونگے ہمیشہ جنّت میں رہینگے وطن عزیز پاکستان کے آئینی اصلا حات کا ارتقائی عمل 71سالہ تجربات اور مشا ہدات کی روشنی میں زیادہ قابل فخر اور باعث رشک نہیں ہے اس لئے پیشگوئی بھی بہت سے لو گوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو گی سابقہ تجربات اور موجوہ حا لات کی روشنی میں جو دُھند لی سی تصویر ہمارے سامنے رکھی گئی ہے اس میں صاف نظر آتاہے کہ مستقبل کے لئے تین راستے ہیں پہلا راستہ یہ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں تمام سیکو لر عنا صر متحد ہو کر ملک کو سیکو لر ریا ست بنانے کی راہ ہموار کریں دوسری صورت یہ ہے کسی ایک عالم دین کی قیا دت میں تما م مذہبی گروہ متحد ہو کر ملک کو اسلامی فلا حی ریا ست کا درجہ دیدیں تیسری صورت یہ ہے کہ پاک فوج اقتدار اپنے ہاتھ میں لیکر1960کے عشرے کی طرح اسلامی اقدار کے ساتھ سیکو لرزم کی آمیزش سے کم از کم 30سالوں کے لئے فوج ہی کی زیر نگرانی میں ایک مثالی آئینی ، قانو نی اور فلا حی حکومت قا ئم کرے جس میں نو جوانوں کے لئے اُ مید ،غریبوں کے لئے خوشحا لی اور ملک کے اندر زراعت سے لیکر صنعتی شعبے تک ہر شعبہ ء زندوگی میں تر قی کے موا قع ہوں فاضل مقر ر سے پو چھا گیا کہ زیا دہ امکا ن کس راستے کا نظر آتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ 1977سے اب تک 41سالوں میں جو تجربات ہوئے اُ ن تجربات کی روشنی میں مذہبی گروہ ہوں کا باہمی اتحاد مشکل ہے دوریاں بڑھ چکی ہیں فاصلے زیادہ ہوئے ہیں تضا دات کھل کر سامنے آگئے ہیں 1960اور 1970کے عشروں کا ریکارڈ دیکھیں تو ملک میں چار مذہبی دھا رے تھے 2018ء میں مذہبی گروہوں کی تعداد 16ہو گئی ہے اور سب کے سب مسلّح ہیں منا ظرہ ، مکا لمہ ، مبا حثہ کوئی نہیں کرتا بم ،راکٹ ، میزا ئل اور کلا شنکوف دکھا تے جا رہے ہیں قیا دت کے منصب پر جو لوگ فائز ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق معروف معنوں میں فقہا اور علماء کے طبقے سے نہیں لیوی کا سابق حوالدار ، کنسٹرکشن کمپنی کا رنگساز ، ٹرانسپورٹ اڈے کا منشی یا ٹرک ڈرائیور مذہبی فتوے جا ری کر تاہے اور اپنی الگ جما عت بنا کر قیادت کے منصب پر فائز ہو جا تاہے یہ صورت حال اس بات کی غمازی کر تی ہے کہ مذہبی گروہوں کا اتحاد روز بروز مشکل ہو تا جارہا ہے 1921ء میں سلطنت عثمانیہ کے اندر ایسی ہی صور ت حال پیدا ہوگئی تھی مصطفےٰ کمال اتاترک نے اس صورت حال میں ترکی کو تبا ہی سے بچانے کے لئے سیکولر زم کا راستہ اختیا ر کیا اور تر کی کوتباہی سے بچا لیا تر کی میں سیکو لر زم کی وجو ہات میں دو وجوہات نما یاں تھیں پہلی وجہ علماء کے با ہمی اختلا فات اور دوسری وجہ عر بوں کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کے خلا ف بغا وت تھی اس بغا وت کو بر طانیہ ، فرانس ، اٹلی اور دیگر طا قتوں کی سر پرستی حا صل تھی صرف ہندوستان کے مسلمانوں نے عثما نی خلا فت کے حق میں تحریک چلائی کسی اور ملک سے عثما نی خلا فت کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھی بلکہ عربوں نے خلافت عثما نیہ کے خلا ف محا ذ قائم کر لیا پا کستان کے مستقبل کا دوسرا راستہ سیکو لرزم ہے اور یہ پہلے راستے کی ضد ہے اس کا با لکل الٹ ہے اگر مذہبی گروہوں کا اتحا د سامنے نہیں آیا تو یہ نو شتہ دیوار ہے زمینی حقیقت ہے سامنے کی بات ہے اس سے مفرنہیں مو جو دہ حا لات میں سیکولر قو توں کا اتحاد زیادہ مشکل نظر نہیں آتا ان کا تحا د ہو سکتا ہے اگر سیکولر قو تیں متحد نہیں ہوئیں تو پا کستان کو بچا نے کے لئے وہی لوگ آگے آئینگے جو ایسے حا لات میں ملک کو بچا نے کے لئے ہمیشہ آگے آتے رہتے ہیں یہ تجویز نہیں تجزیہ ہے کیمرے سے لی گئی تصویر ہے مگرمشکل وہی ہے جو خواجہ میر درد کو در پیش تھی ؂
ہر چند ہو ں آئینہ پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھر لے وہ جس کے مجھے رو برو کریں
یہاں تک پڑھنے کے بعد میرے دوست نے کہا کہ آخری راستے کی نو بت نہیں آئے گی سیکو لر قو توں کا اتحاد ہو جائے گا کیونکہ اُن کے مقا صد مشترک ہیں اُن میں نظریہ کا اشتراک ہے نصب العین مشترک ہے یہ بات اگر درست ہے تو مذہبی گروہوں کوبھی کسی ایک نصب العین پر متحد ہو نا پڑے گا ورنہ تیسرے آپشن کو دونوں قو تیں اپنا کندھا پیش کر تی رہی ہیں آئیندہ بھی پیش کرینگی تیسرے آپشن کا امکان زیادہ ہے اور پا کستان کا روشن مستقبل اسی امکان سے وا بستہ ہے ساغر صدیقی نے ویسے تو نہیں کہا ؂
شاید یہیں کہیں ہوتیرا نقش پا ئے ناز
ہم نے گرادیے ہیں سر رہ گزار پھول

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button