شوکت عزیزصدیقی کے بعد جسٹس اطہر من اللہ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیا کچھڑی پک رہی ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس کیلئے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نئی کھچڑی پکانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر وکلاء تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ کے جونیئر ترین ججز کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی آئندہ ماہ سترہ نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ کی بنیاد پر دائر ریفرنس بھی ختم کر دیئے گئے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ جسٹس انور کاسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک یا جسٹس شاہد کریم کا تبادلہ کر کے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کا ججز سنیارٹی لسٹ میں 13واں نمبر ہے جبکہ جسٹس شاہد کریم کا 31 واں نمبر ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک قابل ترین ججز میں شمار ہوتی ہیں، کسانوں کے حقوق سے شریف خاندان کی شوگر ملز کی جنوبی پنجاب منتقلی کو غیرقانونی قرار دینے تک انہوں نے لاتعداد بہترین فیصلے کئے ہیں۔
اگر سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کو آئی ایس آئی پر عدلیہ میں مداخلت کے الزامات پر عہدے سے برطرف نہ کیا جاتا تو پھر شوکت صدیقی نے جسٹس انور کاسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بننا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
شوکت صدیقی کی برطرفی اور جسٹس انور کاسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس اطہر من اللہ کو روایت کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تعینات کیا جانا چاہیے لیکن نئی کھچڑی نئے طریقے سے پکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کو 2014 ءمیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا اور آئینی و قانونی حلقوں میں جسٹس اطہر من اللہ کو دیوانی، فوجداری، رئیل اسٹیٹ، ماحولیات اور لاپتہ افراد کے مقدمات میں شاندار فیصلے دینے پر انتہائی احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے حال ہی میں پانامہ کرپشن سکینڈل میں ملوث سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ضمانت پر رہائی کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
دوسرے صوبے کی ہائیکورٹ سے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج مقرر کرنے کی اطلاعات پر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا جمعے کے روز ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا ہے جس میں ساری صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جاوید اکبر شاہ کے مطابق انہوں نے ایک آئینی درخواست بھی دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کو ہی چیف جسٹس مقرر کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سینئر ممبر ایڈووکیٹ سید واجد علی گیلانی کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن پاکستان سے درخواست کی جائیگی کہ کسی دوسرے صوبے کی ہائیکورٹ کے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر نہ کیا جائے۔
’’ اگر ایسا کیا گیا تو یہ پیغام جائیگا کہ جسٹس شوکت صدیقی کو اس لئے ہٹایا گیا تاکہ کسی دوسرے صوبے سے جج کو اکاموڈیٹ کیا جا سکے‘‘
چودھری شعیب سلیم ایڈووکیٹ کے مطابق ’’ایسا کرنے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے دیگر ججز کے حقوق متاثر ہوں گے لیکن آج کل پاکستانی عدلیہ کی جو صورتحال ہے، اس میں چیف جسٹس پاکستان سے کچھ بھی اپ سیٹ توقع کی جا سکتی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ شریف خاندان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دینے والے جسٹس اطہر من اللہ کا راستہ روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔