تازہ ترین

دریائے چترال کا نام دریائے کابل کیوں؟

رحیم علی

ایک شخص دوسرے ملک میں قیام کے بعد یا سفر کرنے کے بعد واپس اپنے ملک میں جب آجاتا ہے تو شاید اس کے رنگ و روپ اور شکل و شباہت بدل جاتے ہیں لیکن یہ بات اٹل ہے اس کا نام کبھی بھی نہیں بدلتا ہے۔ چترال کے برف پوش پہاڑوں سے نکلتے ہوئے چشمے برف سے پگھلتے ہوئے پانی مختلف ندیوں سے گزر کر جب اپس میں ملتے ہیں تو دریائے چترال کا روپ دھار لیتے ہیں۔ دریائے چترال قدرت کی طرف سے ایک بہت بڑا عطیہ اور چترال کے حسن میں دلکشی کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ یہ چترال سے بہتا ہوا افغانستاں کے کچھ حصوں سے گزرنے کے بعد واپس اٹک کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو اسے دریائے کابل کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ عقل کے منافی نہیں ہے تو کیا ہے؟ دنیا سے ہزاروں سیاح اٹک کے مقام پر دریا کے نظارے کے لئے آتے ہیں اور اسے دریائے کابل کہہ کر پکارتے ہیں تو دریا بھی شور مچاتا ہوا روتا ہوا دریائے سندہ میں ڈوب جاتا ہے۔ کیونکہ دریائے چترال کو دریائے کابل کہا جاتا ہے۔ چترال سے ہزاروں لوگ ملازمت، کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ لیکن کسی کا نام بدل نہیں جاتا ہے بلکہ اصلی نام کے ساتھ چترالی بھی جڑ جاتا ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل الٹ ہے یہ سراسر نا انصافی پر مبنی ہے۔ پچھلے دنوں ایک چترالی شہری یہ اپیل لے کر پشاور ہائیکوٹ پہنچ گیا تھا کہ دریا ہمارا نام کسی اور ملک کا کیوں؟ اور اس نے یہ درخواست ہائیکوٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں جمع بھی کرائی تھی۔ اس درخواست کے متعلق اے این پی کے صوبائی جنرل سیکریٹری جناب سردار حسین کا کہنا ہےکہ یہ فردِ واحد کی خواہش ہو سکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں سب سے پہلے اس شخض کو جس نے یہ درخواست جمع کی ہے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ جس کے لئے انہوں نے قدم اٹھایا ہے یہ چترالیوں کا بنیادی حق ہے۔ مزید یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ فردِ واحد کی خواہش نہیں ہے بلکہ پورے چترال کی آواز ہے اس معاملے میں مکمل طور پر متفق ہو کر اپنے حق کے لئے ہر کوئی آواز بلند کرنے پر آمادہ ہے۔ اب وقت آواز بھی دے رہا ہےہمیں پھر دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ہر ذی شعور کو اس معاملے میں کردار ادا کر دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جو آج مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا کل اسے مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑے گا۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button