نوازشریف ،مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدرکی سزاکالعدم ،اسلام آباد ہائیکورٹ کا تینوں کواڈیالہ جیل سے رہا کرنے کا حکم
اسلام آباد( آوازچترال رپورٹ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف،انکی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تینوں کو اڈیالہ جیل سے فوری رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نظرثانی اپیل کی کل 5سماعتیں ہوئیں۔دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڑھائی بجے کے قریب فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مریم نوازنے تسلیم کیا ہے کہ وہ والد کے زیر کفالت ہیں نیسکول اور نیلسن کی ملکیت مریم نواز کی تھی، کیلیبری فونٹ ان دنوں دستیاب ہی نہیں تھا، ان کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی قرار دی گئی۔عدالت نے پوچھا کہ مان بھی لیا جائے کہ مریم نواز کی پیش کردہ دستاویزات جعلی ہیں تو کیا نیب عدالت سزا دےسکتی ہے، آپ کہتے ہیں کہ جائیدادیں بیرون ملک ہیں، اس لیے بار ثبوت نیب پر نہیں آتا؟نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مریم نواز کی معاونت تو تب ہوتی جب جائیداد خریداری میں کوئی کردار ہوتا۔نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جائیداد کی قیمت لازمی شرائط نہیں ہے، فلیٹس موجود ہیں، پرتعیش لائف اسٹائل سامنے ہے، میڈیا انٹرویوز موجود ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جعل سازی بھی ہو تو متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی ہوگی۔نیب پراسیکیوٹرکے دلائل مکمل ہونے کے بعد خواجہ حارث نے کہا کہ صرف 10 منٹ دلائل دوں گا۔خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہونے پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ خواجہ حارث صاحب آپ کے 10منٹ پورے ہوگئے؟جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہوگئے ہیں سر۔خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔اس حوالے سے اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواستیں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ پہلے دینے سے متعلق نیب کی استدعا مسترد کر دی تھی۔6 جولائی کواسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلہ سنایا تھا کہ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز7 سال اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر 2 سال اڈیالہ جیل میں گزاریں گے۔سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز لندن سے واپس پاکستان آئے اور گرفتاری دے دی۔پھر سزاؤں کے خلاف 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 5 سماعتوں میں وکلاء صفائی اور نیب کا مؤقف سنا، غیر ضروری التواء پر عدالت نے نیب پر 10 ہزار جرمانہ بھی عائد کیا۔سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے 20 اگست کو سزا معطلی پر فیصلہ مؤخر کردیا،عدالتی تعطیلات کے بعد درخواستوں کی نئے سرے سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔عدالت نے فریقین کو شواہد اور میرٹس سے ہٹ کراحتساب عدالت کےفیصلے پر سرسری دلائل دینے کی ہدایت کی۔نیب نےسزا معطلی کی درخواستوں کی پہلے سماعت سےمتعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔سپریم کورٹ نے پٹیشن مسترد کر دی اور عدالتی وقت ضائع کرنے پرنیب کو20 ہزار روپے جرمانہ بھی کردیا۔