واز شریف کیس: نیب پراسیکیوٹر کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دھمکی آمیز رویہ
اسلام آباد (آوازنیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزائوں کیخلاف اپیلوں میں ضمانت کی درخواستوں میں میں نیب پراسیکیوٹر کی طرف سے کیس سے الگ ہونے کی دھمکی کے بعد نیب کو کو تحریری جواب جمع کرانے کیلئے مزید دو دن کی مہلت دیدی ہے اور سماعت 20 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ پر مشتمل اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت شروع کی تو نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کے وکیل خواجہ حارث اور امجد پرویز جبکہ نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی وکلاء ٹیم کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے دلائل شروع کرتے ہوئے مئوقف اختیار کیا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے پیراوائز کمنٹس(تحریری جواب) کے حوالے سے ہدایات دی ہیںجس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پراسیکیوٹر جنرل خود دلائل دینے آجاتے۔خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک مہینہ ہو گیا ہے نوٹس جاری ہوئے ،اب نیب ایسا کیسے کہہ سکتا ہےجس پر نیب کے پراسکیوٹر بولے کہ آپ بات نہ کریں، میں نے عدالت سے استدعا کی ہے، نیب کے وکیل کا جواب دیتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ میں سلاخوں کے پیچھے ہوں اور آپ کہہ رہے ہیں بات نہ کروں۔اس موقع پر دونوں وکلاء میں گرما گرمی بھی ہوئی تاہم عدالت نے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔
نیب کے پراسکیوٹر نے پپراوائز کمنٹس جمع کرانے کیلئے مہلت پر زور دیا تو عدالت نے کہا کہ اپنی التواء کی درخواست ابھی سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی، آپ اپنے جوابی دلائل تو شروع کریں۔ اس پر نیب کے پراسکیوٹر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو دھمکی دی کہ میں کیس سے الگ ہو جاتا ہوں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کیس سے علیحدہ ہو رہے ہیں؟ تو نیب پراسکیوٹر نے دوبارہ دھمکی دی کہ اگر مجھے پیراوائز کمنٹ جمع کرانے کیلئے مہلت دی جائے تو میں دلائل جاری رکھ سکتا ہوں۔نیب پراسکیوٹر کے اس رویے پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ اس عمل کا اس پر کیا اثر پڑے گا۔ پہلے کیس ٹرانسفر کی درخواست سنی گئی اس پر کسی کے وقت نہیں مانگا، اس پورے معاملے میں ایک مہینہ لگا۔ آپ نے ابتدائی اعتراضات اٹھا دیے ہیں، وہ تحریری طور پر دے دیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب کے پراسکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیئے کہ تحریری اعتراضات کو بعد میں سن لیں گے، آپ دلائل دیں، آپ کے اعتراضات ہم سنیں گےتاہم نیب کے پراسکیوٹر اپنی دھمکی پر ڈٹے رہے اور جواب دیا کہ میں دلائل شروع نہیں کر سکتا، پیروائز کمنٹس جمع کرانے کیلئے مہلت دی جائے۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوشن کا آپس میں تضاد ہے، آپ فیصلہ کر لیں، اگر آپ دلائل نہیں دیتے تو یہ آپ کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت نے التوءا مانگنے پر قومی احتساب بیورو کو 10 ہزار روپے جرمانہ کیا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب کی طرف سے مقدمے کا التوا مانگنا انتہائی قابل افسوس ہے۔نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں نیب کے حکام کے حکام کی طرف سے یہ ہدایات ملی تھیں کہ وہ عدالت سے بس اس مقدمے میں التوا لینے کی درخواست کریں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے جس میں عدالت نے بغیر کسی وجہ کے کسی مقدمے کا التوا دیا ہو۔اُنھوں نے کہا کہ کوئی پرائیویٹ پارٹی التوا مانگے تو بات سمجھ میں اتی ہے لیکن نیب جیسا ادارہ جو مقدمات کو کم سے کم وقت میں اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کا دعویٰ کرتا ہے، آج وہی اس مقدمے میں التوا مانگ رہا ہے۔عدالت کے استفسار پر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ اُنھیں نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے کہا تھا کہ وہ عدالت سے اس اپیل پر التوا مانگ لیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس اپیل پر التوا مانگتے ہوئے آپ کا چہرہ بڑا غیر مطمئن ہے۔نیب پراسکیوٹر کی طرف سے دھمکی آمیزروزیہ اختیار کئے جانے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے نیب کو پیروائز کمنٹس20 اگست تک جمع کرانے کی تک مہلت دیدی۔ عدالت نے حکم دیا کہ 18 اگست کی شام تک پیروائز کمنٹس جمع کرا دیں اور 20 اگست کو دلائل دیں۔