2018 کے انتخابی نتائج: ’بس اپنے کام سے کام رکھو‘

میں اپنے اندازے کے مطابق اسے بتایا تو وہ سکیورٹی اہلکار کچھ دیر کے لیے وہاں سے چلا گیا اور موبائل پر کسی کو اس بارے میں اطلاع دے کر واپس آ گیا۔ سکیورٹی اہلکار نے یہ معاملہ چھ سات مرتبہ دہرایا اور میں بھی ایک فرماں بردار بچے کی طرح اس کو صورتحال سے آگاہ کرتا رہا۔ میری معلومات وہ کسی اور تک پہنچا دیتا تھا۔
شام چھ بجے جب پولنگ کا وقت ختم ہونے لگا تو مجھے بتایا گیا کہ پاکستان کے چیف جسٹس نے ان تمام لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی ہے جو نہ صرف پولنگ سٹیشن کے احاطے میں قطاروں میں کھڑے ہیں بلکہ جو پولنگ سٹیشن کی عمارتوں کے باہر بھی قطاروں میں کھڑے ہیں، اُنھیں بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت ہو گی۔
میرے پولنگ سٹیشن پر صرف ان لوگوں کو ہی ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی جو عمارت کے اندر تھے جبکہ درجنوں کی تعداد میں جو لوگ عمارت کے باہر کھڑے تھے انھیں واپس اپنے گھروں کو جانے کا کہا گیا اور ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس پولنگ سٹیشن پر جب ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا تو پولنگ ایجنٹوں کو اس ڈبے کے قریب نہیں آنے دیا گیا جس میں ووٹ ڈالے گئے تھے بلکہ اُنھیں دس فٹ دور بیٹھنے کا کہا گیا۔
اس دوران مسلم لیگ ن کے امیدوار کے پولنگ ایجنٹ نے اعتراض کیا تو سکیورٹی اہلکار نے اپنے افسر کو فون کیا اورکچھ دیر کے بعد چار پانچ سکیورٹی اہلکار وہاں آئے اور پولنگ ایجنٹوں کو سخت الفاظ میں کہا گیا کہ ’جس طرح کہا جاتا ہے اسی طرح عمل کریں ورنہ ان کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔‘
کچھ دیر کے لیے پولنگ ایجنٹوں کو کمرے سے نکال دیا گیا اور ڈبوں کو ایک کمرے میں تقریباً آدھ گھنٹے کے لیے رکھ دیا گیا۔ اس دوران سکیورٹی کی دو گاڑیاں پولنگ سٹیشن کے اندر آئی بھی۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ کتنے ڈبے کمرے کے اندر رکھے گئے اور جب نکالے گئے تو کتنے تھے۔
تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم قاسم نے بی بی سی کو بتایا کہ بیلٹ باکس ہر وقت پریزائیڈنگ افسر کی نگرانی میں ہونے چاہیے تھے۔ ’سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ پریزائڈنگ افسر کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ کہیں کسی امیدوار کا پولنگ ایجنٹ انتخابی ریکارڈ یا پریزائڈنگ افسر کو نقصان نہ پہنچائے۔‘
کچھ دیر کے بعد پولنگ ایجنٹوں کو کمرے میں آنے کی اجازت دی گئی اور میں نے وہ تمام ڈبے خالی کیے جن میں ووٹ ڈالے گئےتھے۔ پولنگ ایجنٹوں کو دور سے ہی ایک ایک کر کے ووٹ دکھائے۔ اتنے فاصلے سے صرف یہ تو نظر آتا تھا کہ کس انتخابی نشان پر مہر لگی ہوئی ہے لیکن اگر اس کی سیاہی کسی دوسرے نشان پر چلی گئی ہو تو یہ نظر آنا تھوڑا مشکل تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں کسی پولنگ ایجنٹ نے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی۔
جب ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی اور میں فارم 45 پر کر کے نتیجہ تیار کرنے لگا تو سکیورٹی اہلکار میرے پاس آیا اور کہا کہ سر ابھی یہ تیار نہ کریں جب کہا جائے گا تو پھر تیار کریں۔ ‘
اس دوران سکیورٹی اہلکار نے اپنے کیمرے سے رزلٹ کی تصویر کھینچی اور تھوڑی دیر کے لیے وہ وہاں سے چلا گیا۔ میں نے غصے میں آ کر ایک سادہ کاغذ پر رزلٹ تیار کر کے پولنگ ایجنٹوں کو دینے کی کوشش کی تو مجھے روک دیا گیا۔ رات 12بجے کے قریب اس پولنگ سٹیشن کا نتیجہ آر ٹی ایس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کی اجازت دی گئی۔
اس پریزائیڈنگ افسر کے بقول اس کا آر ٹی ایس نظام ٹھیک تھا لیکن اسے فوری نتیجہ بھیجنے کی اجازت نہیں تھی۔
محمد رمضان کے مطابق انتخابات کے تین روز گزر جانے کے باوجود اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے اور اس کی واضح مثال یہ تھی کہ اس نے اپنی گلی میں ایسے افراد کو بھی دیکھا تھا جو اس کے محلے کے نہیں تھے۔
نتائج تاخیر سے آنے سے متعلق الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ آر ٹی ایس سسٹم نے کام چھوڑ دیا تھا لیکن جمعرات کو پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے جب اس بارے میں دریافت کیا تو اُنھوں نے کہا کہ تکنیکی نظام سست روی کا شکار تھا، مکمل طور پر بند نہیں ہوا تھا۔
اسی طرح ایک سرکاری سکول کی استانی ابیہا فاروقی نے اپنے سوشل میڈیا کے ایک اکاؤنٹ پر اس روز کی داستان تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا آڑ ٹی ایس نظام بھی درست کام کر رہا تھا۔
انھوں نے لکھا کہ جس تحصیل میں انھیں تعینات کیا گیا، وہاں میں نے ایک وڈیرے کے اپنی نشست برقرار رکھنے کے لیے خوب پیسہ خرچ کرنے کی کہانیاں سنی تھیں۔ میرے فکرمند والد نے میرے ماموں کو ساتھ بھیجا۔
ابیھا کے مطابق انھیں آر ٹی ایس کے تنصیب کے لیے پولنگ سے محض دو روز قبل ریٹرنگ افسر نے طلب کیا تھا۔
کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آر ٹی ایس نظام کی خرابی سے متعلق اعتراضات کے بعد الیکشن کمیشن نے اس معاملے کو تحقیقات کے لیے حکومت کو دعوت دی تھی۔ اس کے لیے اس نے کیبنٹ ڈویژن کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا تاہم ابھی تک نا تو تحقیقات کا بظاہر آغاز ہوا ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں ہزار پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے تھے جہاں پر سکیورٹی کے لیے فوج کے تین لاکھ 71 ہزار افسروں اور جوانوں کو تعینات کیا گیا تھا۔
ان میں سے بہت سے فوجی افسروں کو پولنگ کے دوران مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے تھے۔ نگراں وزیر قانون علی ظفر سینیٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے باوجود آج تک ایسے فوجی افسران کی فہرست ایوان میں پیش نہیں کر سکے جنھیں مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے تھے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے آیا ہے۔