تازہ ترین

صوبائی اسمبلی چترال کا انتخابی جائزہ …..محکم الدین ایونی

حالیہ انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹرز ایسے ہیں ۔ جو قومی اسمبلی کیلئے کسی ایک پارٹی کے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو صوبائی اسمبلی کا ووٹ کسی دوسری پارٹی کو دینے کیلئے فیصلہ کر تے نظر آتے ہیں ۔ اس طرح کا عمل اگرچہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ۔ تاہم یہ بات حقیقت ہے ۔ کہ گذشتہ تمام انتخابات کے مقابلے میں اب کے بار امیدواروں کے حق میں اس قسم کے فیصلے زیادہ آنے کے امکانات ہیں ۔ اس لئے یہ توقع رکھنا یا پیش بینی کرنا شاید مشکل ہے ۔ کہ ایک پارٹی کے دونوں امیدوار ہی جیت جائیں گے ۔ بہت سے پارٹیوں کے کارکناں کو اپنے دوست احباب سے ووٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے سنا جا رہا ہے ۔ کہ قومی اسمبلی کا ووٹ آپ جس کو دینا چاہتے ہیں اپنی مرضی سے دے دیں لیکن صوبائی اسمبلی کا ووٹ میرے کنڈیڈیٹ کے حق میں استعمال کریں ۔ اور اسی طرح بعض سے قومی اسمبلی کیلئے ووٹ طلب کئے جاتے ہیں ۔ اور صوبائی اسمبلی کا ووٹ اپنی خواہش کے مطابق کسی کو دینے کی بات کی جاتی ہے ۔ اس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے ۔ کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر دو مختلف امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ جو چترال کے مفاد کیلئے کس حد تک درست ہے ۔ یہ ووٹر ہی بہتر جانتے ہیں ۔ لیکن یہ مشاہدے میں آیا ہے ۔ کہ مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کی کامیابی سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوتے ہیں اور ایسے ممبران اسمبلی ایک دوسرے پر الزمات لگانے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اگرایک ممبر کوئی عوامی کام کرنے کیلئے قدم اُٹھاتا ہے ۔ تو دوسرا اُس کی مدد کرنے کی بجائے راستے میں روڑے اٹکا تا ہے ۔ گویا جس کام کیلئے جنہیں منتخب کیا گیا ۔ وہی ایک دوسرے کے مقابل ٹھہرے ۔ پارلیمانی نظام حکومت میں جہاں قومی اسمبلی ،سینٹ کی قانون سازی کے حوالے سے اپنی الگ الگ حیثیت و اہمیت ہے ۔ وہاں صوبائی حکومتوں کا مقام بھی کم نہیں ۔ خصوصا اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے اختیارات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ جس سے کئی شعبوں کے براہ راست اختیار صوبوں کو مل گئے ہیں ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اسمبلی ممبران کا کام قانون سازی کے علاوہ پراجیکٹ تعمیر کرنا بھی ہے ۔ اس لئے ان پراجیکٹس کے ذریعے اپنے اپنے ووٹرز کو خوش کرنے اور کریڈٹ لینے کیلئے دو مخالف پارٹیوں سے کامیاب شدہ ممبران اسمبلی ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اس حد تک جاتے ہیں کہ سرکاری آفیسران کے سامنے بھی ایک دوسرے کونیچا دیکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ گزشتہ حکومت میں پیش آنے والے حالات اس کے گواہ ہیں ۔ گروپ بندی کے تحت ایسے کام بھی کئے گئے ، کہ خود اپنی بے توقیری کی مثال قائم کی ۔ ایک ایک منصوبے پر نہ صرف بر سر اقتدار پارٹیوں کے نمایندوں نے چار چار افتتاحی تختیاں لگوائیں۔ بلکہ لگی تختی اُکھاڑ کر اپنی تختی لگانے کا عمل بھی دیکھا گیا ۔ اب یہ حالات دیکھ کر ڈپٹی کمشنر چترال کیوں خاموش رہتا ۔ اُس نے بھی تختیاں لگانی شروع کردیں۔ سیاست میں ہمارے نمایندے ایک دوسرے کے مقابلے میں یہ بات بھول جاتے ہیں ۔ کہ عوام نے اُنہیں صرف منصوبوں کی تعمیر کیلئے منتخب نہیں کیا ۔ بلکہ اُن کو اس لئے چنا ہے ۔ کہ وہ قیادت کے اہل ہیں ۔ اور قائد ہمیشہ قوم اور عوام میں اتحادو اتفاق کو فروغ دیتا ہے ۔ انتخاب کے بعد وہ کسی پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر سے بڑھ کر چترالی عوام کا نمایندہ ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ چترال کے عوام کے بلا امتیاز خدمت کرنے کے پابند ہیں ۔ اس طویل بحث کا مقصد اُن عوامل کو سامنے لانا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہمیں انتخابات کے بعد جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ اُن سے خود کو بچایا جا سکے ۔
حالیہ انتخابات میں صوبائی سمبلی کی نشست کیلئے پندرہ امیدوار میدان میں ہیں ۔ جن میں آٹھ پارٹی امیدوار اور سات آزاد اُمیدوار ہیں ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ چترال میں آزاد امیدواروں کی اتنی پذیرائی تاحال دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جس طرح ملک کے بعض شہروں میں اُن کو کامیاب کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے ۔ کہ آزاد امیدوارالیکشن پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ اور بعض اوقات الیکشن میں جیتنے کی پوزیشن والا اُمیدوار آزاد اُمیدوار کو پڑنے والے گنتی کے چند ووٹوں کی وجہ سے ہار جاتا ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ اور اب کے بار بھی انتخابات میں آزاد امیدواروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ جو کسی نہ کسی حد تک پارٹی امیدواروں کے ووٹوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ قومی اسمبلی کی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے جن پارٹیوں کے امیدوار مد مقابل ہیں ۔ اُن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حاجی غلام محمد ، متحدہ مجلس عمل کے مولانا ہدایت الرحمن ، پاکستان تحریک انصاف کے اسرار الدین ، پاکستان مسلم لیگ ن کے عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ ، آل پاکستان مسلم لیگ کے سہراب خان ، عوامی نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر سردار احمد ، راہ حق پارٹی کے مولانا سراج الدین ، پی ایس پی کے عطاء اللہ شامل ہیں ۔ اس وقت تمام سیاسی حلقے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کہ صوبائی اسمبلی کی نشست کا قرعہ کس کے نام نکلے گا ۔ اور اس حوالے سے دلائل اور قیاس آرئیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے ۔ اور ہر کوئی اپنے من پسند پارٹی کا گیت گارہا ہے ۔ اورجیت کا سرٹیفیکیٹ اُسے دے رہا ہے ۔ لیکن اصل حقیقت 25جولائی کو ہی واضح ہو گی ۔ کہ اونٹ کس کر وٹ بیٹھتا ہے ۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے ۔ کہ چونکہ اپر چترال خصوصا سابق تحصیل مستوج ( بیار ) سے سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد صوبائی اسمبلی کے واحد امیدوار ہیں ۔ اس لئے اُن کو اس بات کا یقین ہے ۔ کہ باوجود دوسری پارٹیوں کی کوششوں کے حاجی غلام محمد بیار ایریے میں تمام اُمیدواروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے ۔ اور اسی Lead ووٹ کے اوپر ضلع کے دیگر حصوں سے جمع ہونے والے ووٹ اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں معاون مددگار ثابت ہوں گے ۔ جبکہ دیگر قیافہ شناسوں کا کہنا ہے۔ کہ تورکہو اور موڑکہو کی سطح پر مولانا ہدایت الرحمن مضبوط امیدوار ہیں ۔ اس لئے ان دو امیدواروں حاجی غلام محمد اور مولانا ہدایت الرحمن کے مابین نہایت کانٹے دار مقابلہ ہو گا ۔ گو کہ موڑکہو ہی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سردار احمد خان امیدوار عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد امیدوار سعادت حسین مخفی کو ڈالے جانے ووٹوں کا خسارہ مولانا ہدایت الرحمن کو برداشت کرنے پڑیں گے ۔ صوبائی اسمبلی کے دیگر مضبوط امیدواروں میں اسرارالدین پاکستان تحریک انصاف ، عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ پاکستان مسلم لیگ ن اور سہراب خان آل پا کستان مسلم لیگ شامل ہیں ، لوئر چترال میں یقینی طور پر ان امیدواروں کا زور زیادہ ہے ۔ خصوصا آل پاکستان مسلم لیگ کا الیکشن کمپین متاثر کُن ہے ، اور کارکنوں میں بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ اور الیکشن پر بھاری اخراجات بھی کئے جارہے ہیں ۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے اس انتخابی مہم میں جوش و جذبے کا سہرا اس پارٹی کے صوبائی امیدوار سابق ناظم سہراب خان کے سر ہے ۔ جنہوں نے پرویز مشرف سے محبت رکھنے والوں کو یکجا کرنے میں کردار ادا کیا۔ بلکہ پوری رضاخیل برادری کو متحرک کیا ہے ۔ جبکہ عین موقع پر آل پاکستان مسلم لیگ کی کابینہ کے استعفی سے یہ لگ رہا تھا ۔ کہ پارٹی اس مشکل وقت میں خود کو نہیں سنبھال سکے گی ۔ لیکن وہ خدشات غلط ثابت ہوئے ۔ اور مرکزی صدر ڈاکٹر محمد امجد چوہدری نے عین موقع پر شہزادہ امیر الحسنات المعروف شہزادہ گُل کو صدر نامزد کرکے نہ صرف یہ خلا پُر کر لیا ۔ بلکہ انتخابی مہم کے راستے میں رکاوٹیں کسی حد تک دور کر دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے شیدائی اور رضاخیل برادری کے بزرگ و نوجوان اپنے امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے صوبائی امیدوار اسرار الدین ایک تازہ اور نوجوان ذہن کے مالک ہیں ۔ اُن کو مختلف غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے ۔ انہوں نے کمیونٹی میں کاروباری سوچ کو ترقی دے کر مقامی وسائل سے آمدنی حاصل کرنے کے عمل کو پروان چڑھایا ۔ اور اسی مثبت سوچ کو وہ حکومتی سطح پرترقی دینے کیلئے گذشتہ کئی سالوں سے کو شان ہیں ۔ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت ہے ۔ جو مستقبل میں پورے ملک میں حکومت کے قیام کادعوی رکھتی ہے ۔ اس لئے چترال سے تحریک انصاف ہر صورت کامیابی کیلئے کوشش کر رہا ہے ۔ تاہم یہ کامیابی اتنی بھی آسان نہیں۔ جبکہ مقابلے میں کئی عمر رسیدہ پارٹیوں سے قد کاٹ کے حامل امیدوارکھڑے ہیں۔ لیکن نااُمیدی کفر ہے کے مصداق تمام پارٹیاں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ۔ تحریک انصاف کے صوبائی امیدوار اسرار الدین کے ووٹوں کا (Base)لٹکوہ میں مضبوط ہے ۔ جبکہ ضلع بھر میں نہایت جذباتی کارکن اس کو سپورٹ کر رہے ہیں ۔ اگر لٹکوہ کے لوگوں نے حسب روایت اپنی سابقہ الیکشن پالیسی دہرائی تو لٹکوہ کا فیصلہ ا یک مرتبہ پھرسب پر بھاری ہو گا ۔ تاہم اس راستے میں بھی کئی مشکلات نظر آرہے ہیں ۔ جس کی ایک وجہ پارٹی کے اندر اتحاد کا فقدان اور بعض رہنماؤں کی پارٹی سے سرد مہری ہے ۔ صوبائی اسمبلی کے اس دوڑ میں معروف قانون دان عبدالولی ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں ۔ جو پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے کچھ ہی دن پہلے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف سے رفاقت توڑ کر پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا تھا ۔ اور مسلم لیگ ن کی طرف سے اُسے ایک مضبوط امیدوارقرار دے کر ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ عبدالولی ایڈوکیٹ چترال کی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر چترال کے وکلاء کی نمائندگی کر چکے ہیں ۔ اور چترال کی سیاست سے کئی عرصے سے وابستہ ہیں ۔ اس سے قبل بھی ضلعی سطح پر انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا ۔ اب پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ کوہ کے عوام کی طرف سے اس مرتبہ کس حد تک پذیرائی ہوگی ۔ یہ وقت ہی بتائے گا ۔ کیونکہ تمام سیاسی افراد کا اس بات پر اتفاق ہے ۔ کہ ہوم سٹیشنز میں امیداوار کے ووٹ اگر اچھے آجائیں تو اس کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ پی کے ون چترال کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر سردار احمد خان اور پاکستان راہ حق پارٹی کے امیدوار مولانا سراج الدین بھی قسمت آزمائی میں شامل ہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی کی چترال کیلئے بہت خدمات ہیں ۔ جن کی بنیاد پر ڈاکٹر سردار احمد خان چترال سے الیکشن جیتنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ اب یہ عوام پر ہے ۔ کہ وہ کس حد تک احسان مندی کا مظاہرہ کرکے اُنہیں کامیاب بناتے ہیں ۔ 2018کے اس انتخابات میں اگر انتہائی باریک بینی سے پی کے ون چترال کا جائزہ لیا جائے ۔ تو یوں لگتا ہے ۔ کہ مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار حاجی غلام محمد اور ایم ایم اے کے امیدوار مولانا ہدایت الرحمن کے مابین ہی ہو گا ۔ لیکن حالات بدلنے میں وقت نہیں لگتے ۔ ان کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف اپنا داؤ لگا رہے ہیں ۔ لیکن چاہے جو بھی کامیاب ہو ۔ اللہ پاک اُس کو چترال کے عوام کی صحیح خدمت کرنے کی توفیق دے ۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button