پچیس جولائی کا سورج کس خوش قسمت کے لئے کامیابی کی نوید لیکر طلوع ہوتا ہے……..

پچیس جولائی کا سورج کس خوش قسمت کے لئے کامیابی کی نوید لیکر طلوع ہوتا ہے اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ اب تک وہ روایتی جوش و وخروش نظر نہیں آ رہا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ 25 جولائی کا سورج اگر کسی کے لئے نوید مسرت بن کر مشرقی افق پر نمودار ہوگا تو چند ہی گھنٹوں بعد مغربی افق پر غروب ہوکر بزبان حال یہ پیغام بھی دے گا کہ اس کائنات کے اندر ہر چیز ناپائیدار ہے اور اللہ کی ذات کے سوا ہر چیز کے لئے فنا ہے ۔پارلیمانی عہدے کے متمنی حضرات کے لئے یہ ایک بڑا سبق ہے کہ عوامی نمائندگی بچوں کا کھیل نہیں۔ نمائندگی کا حق ادا کرنا اور حقوق العباد میں انصاف کا لگام تھامے رکھنا اس عہدے کے لئے اولین شرط ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے سیاست کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے ۔عہدے کے حصول کے لئے عوام کو سبز باغ دکھانا محض وعدوں پر ٹرخانااور سب سے بڑھ کر جھوٹ بول بول کر اپنی عاقبت خراب کرنا اور ایک دوسرے کی ذات پر رکیک حملے کرنا گویا کہ موحودہ سیاست کا خاصہ سمجھا جارہاہے حالانکہ یہ چیزیں ایک بازاری آدمی کو بھی ذیب نہیں دیتیں چہ جائکہ امامت کبری کا امیدوار ان کو اپنی رواں سیاست کے لئے شعار بنائے لہذا اسطرح کی حرکات سے اپنے آپ کو ہر ممکن بچانے کی کوشش کیجائے تو بہتر رہےگا۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد اب آتے ہیں چترال کی موجودہ سیاسی صورتحال کیطرف جسمیں ہر گزرتے دن کیساتھ ڈرامائی صورت اختیار کرتے رہنے کی توقع کا اظہار کیا جارہاہے اگر موجودہ سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کیطرح عیاں ہے کہ قومی سبٹ کے لئے مولانا عبدالاکبر شہزادہ افتخارالدین سلیم خان عبداللطیف
اور عیدالحسین چاروں کے چاروں ہیوی ویٹ شخصیات مانی جاتی ہیں۔ مولانا عبدالاکبر چترال کی سطح پر انتہائی مقبول و معروف اور نڈر سیاستدان کے طور پر پہچان رکھتے ہیں اور جماعت اسلامی کی مرکزی سطح کے رہنماؤں میں شامل ہیں مختلف پارٹیوں کے اندر انکے چاہنے والوں کی موجودگی اور خود انکا ذاتی ووٹ بینک انکے لئے سہارا ثابت ہو سکتے ہیں اگر مجلس عمل کے ورکرز نےخلوص و یکجہتی کا مظاہرہ کیا تو انکی کامیابی کے امکانات کافی حد تک روشن ہیں ۔ جہاں تک شہزادہ افتخار کا تعلق ہے تو وہ بھی موروثی اور ذاتی مستحکم ووٹ بینک رکھتے ہیں کامیاب حکمت عملی ترتیب دیکر نواز حکومت کی طرف سے تکمیل شدہ پراجیکٹ اور ذلزلہ ذدگان کو دی گئی نقد امداد سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اس دوڑ میں شامل سلیم خان Ppp کی طرف سے ٹکٹ ہولڈر ہیں یحئثیت صوبائی وزیر اور ایم پی اے دو دفعہ ٹینیور مکمل کر چکے ہیں اور انتخابی مہم چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں وہ بھی سیاسی داؤ پیچ آزما کر حالات کا رخ اپنی جانب موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس قطار میں شامل تحریک انصاف کے عبداللطیف بھی وسیع سیاسی تجربہ رکھتے ہیں نوجوان نسل کی اکثریت تحریک کے ساتھ والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں وہ نوجوانں کو فعال کر کے ٹف ٹائم دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپر چترال میں واحد امیدوار ہونے کو بطور ہتھیار استعمال کر کے اپر چترال کی ہمدردیاں سمیٹ کر اپنی کشتی منجدھار سے نکال سکتے ہیں ۔ چترال کی سطح پر نوذائیدہ عوامی نیشنل پارٹی کیطرف سے الحاج عیدالحسین بھی انتخابی اکھاڑے میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن نیشنل پارٹی کی جڑیں اگرچہ عوام میں مضبوط نہیں ہیں لیکن چترال کے لئے انکی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے نیشنل پارٹی کی حکومت ملازمین کی اپ گریڈیشن کنوینس الاؤنس وغیرہ کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتی ہے اگر عیدالحسین انکو کیش کرانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ بھی خطرے کا الارم بجا سکتے ہیں ۔۔ جہاں تک pk 1 کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی دلچسپ میچ دیکھنے کو ملے گا pk1 کے امیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو متحدہ مجلس عمل کے مولانا ھدایت الرحمان ابتک سب سے فعال نظر آرہے ہیں مجلس عمل کا ایک ہی صراحی سے پانی پینے کی صورت میں مولانا بآسانی سیٹ نکال سکتے ہیں اور ایک صراحی کیطرف ہنکانے کے لئے کامیاب حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی دوسری طرف ہوم اسٹیشن سے اکثریت لانے کی صورت میں پارلیمانی دروازے سے بآسانی اندر داخل ہو سکتے ہیں ۔ دوسری طرف عبدالولی خان عابد بھی ایک منجھے ہوے کامیاب وکیل اور سیاستدان ہیں سیاسی تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع حلقہ احباب بھی رکھتے ہیں ۔ یوسی کوہ اور ٹاؤن سے اکثریت لانے کی صورت میں وہ بھی تند و تیز ہواؤں سے آپنے آپ کو بچا کر اسمبلی ھال کا دروازہ کھٹکٹھا سکتے ہیں ۔ جہاں تک حاجی غلام محمد کا تعلق ہے تو وہ بھی دو دفعہ سیاست کی پرپیچ گھا ٹیاں عبور کرچکے ہیں لوئر چترال کے اندر پی پی پی کا ووٹ انکے حق میں پڑنے کی صورت میں حالات کا کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اسی صف میں شامل تحریک انصاف کے اسرار صبورپارٹی کے اندر کافی فعال کردار کے مالک ہیں گراس روٹ لیول پر انے کیوجہ سے پارٹی کے اندر انہیں کافی پزیرائی حاصل ہے تحریک کے نوجوانوں کے تعاون کی صورت میں ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نظر اتے ہیں۔ یاقی رہا راہ حق پارٹی تو مجلس کے ووٹ بینک کو محدود طور پر متاثر کرسکتے ہیں کوئی قابل ذکر پوزیشن حاصل نہیں کر سکتے ۔ جہاں تک آذاد امیدواروں کا تعلق ہے تو انکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ چترال کی سیاست انکے لئے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ حیثیت 2018 میں بھی برقرار رہے گی۔