تازہ ترین

گورنمنٹ ہائی سکول چترال کی 75سالہ تقریبات۔۔سکول کے سابق اساتذہ اور طا لب علموں نے سکول میں قیام کے دوران اپنی خوشگوار یادوں کو حاضریں سے شیئر کیا

چترال (نمائندہ آوازچترال) چترال کی سب سے قدیم تعلیمی ادارہ گورنمنٹ ہائی سکول چترال کی 75سالہ تقریبات کے سلسلے میں اتوار کے روز سکول میں دو نشستوں پرمشتمل ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں سکول سے فارع ہونے والے طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ پہلی نشست کی صدارت چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے جبکہ دوسری نشست کی صدارت ضلع ناظم مغفرت شاہ نے کی۔ پہلی نشست میں سکول کی تاریخ پر گل مراد خان حسرت ، پوزیشن ہولڈر طلباء کے بارے میں صلاح الدین صالح اوراولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی کارکردگی کے بارے میں شہزادہ تنویر الملک نے اپنے مقالے پیش کئے جبکہ ایسوسی ایشن کے صدر الحاج عیدالحسین نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ یہ مادر علمی ایک الگ پوزیشن اور پہچان کا حامل قدیم ادارہ ہے اور یہاں سے فارع ہونے والے طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک عظیم مقصد کے حصول کی طرف قدم بڑہادی گئی ہے۔سکول کے سابق اساتذہ اور طا لب علموں نے سکول میں قیام کے دوران اپنی خوشگوار یادوں کو حاضریں سے شیئر کیاجنہیں بہت سراہا گیا۔ اس موقع پر ریاست چترال کے زمانے میں سکول میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ مکرم شاہ، پروفیسر سعید اللہ جان، شوکت احمد، محمد زمان، حضرت اللہ، حسین اللہ اور مولائی جان کو ایسوسی ایشن کی طرف سے مہمان خصوصی کے ہاتھ سے سوینئر پیش کئے گئے ۔اپنی خطاب میں چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے کہاکہ انہیں اس مادرعلمی کا سابق طالب علم ہونے پر فخر ہے جہاں سے علم کی شعاعیں نکل کروادی چترال کے گوشے گوشے سے جہالت کے Image may contain: 14 people, people smilingاندھیروں کو مٹادیا اور یہاں پر جوبھی ذہنی، فکری اور طبعی ترقی وقوع پذیر ہوئی ہے، اس میں ہائی سکول چترال کا سب سے ذیادہ کردار ہے۔ انہوں نے چترال یونیورسٹی کی طرف سے اس نوعیت کی پروگرامات کی حوصلہ افزائی کی یقین دہانی کرائی اور ایسوسی ایشنکو مزید فعال بنانے پر زور دیا۔ دوسری نشست میں ضلع ناظم مغفرت شاہ مہمان خصوصی تھے جبکہ واپڈ ا کے سابق سنیئر افیسر انجینئر شیر نبی اللہ خان نے صدارت کی۔ اس نشست میں سکول کے سابق طلباء کی بھولی بسری یادوں پرمشتمل کتاب کی رونمائی بھی ہوئی ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ قومیں افراد سے بنتی ہیں اور افراد کو تعلیم وتربیت کے ذریعے ہی کارآمد بنانے کے لئے ایسے ادارے ناگزیر ہوتے ہیں اور یہ اہالیان چترال کی خوش قسمتی ہے کہ 1930ء کی دہائی میں اس وقت کے درویش صفت حکمران ہزہائی نس سر ناصر الملک نے اس سکول کو قائم کرکے اس وادی کو پسماندگی سے باہر نکالنے اور جدید نسل کو جدید دنیا کے چیلنجوں سے نبرد ازما ہونے کے قابل بنایا۔ انہوں نے چترال میں سکولوں کا جال بچھانے میں 1950ء کی دہائی کے پولیٹیکل ایجنٹ میرعجم خان کی کوششوں کو بھی سراہا۔ ضلع ناظم نے سکول کے اڈیٹوریم میں ضروری کاموں کے لئے دس لاکھ روپے کی گرانٹ کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے سکو ل کے سابق طلباء کی تحریروں پرمشتمل کتاب کو انتہائی معیاری قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس میں سکول کے بارے میں یادوں کو نہایت نازکی اور سلیقے سے سجاکر انہیں تاریخ کا حصہ بنائے گئے ہیں ۔ کتاب پر شہزادہ تنویر الملک اور قاری فدامحمد نے تبصرہ پیش کرتے ہوئے اسے ہر لحاظ سے معیاری قرار دیا۔ 1950ء کے عشرے میں سکول کے ایک پوزیشن ہولڈر طالب علم میرسبحان الدین نے بھی اپنی سرگزشت بیان کی جبکہ سکول کے پرنسپل کمال الدین نے سکول کو درپیش مسائل اور چیلنجز پر سیر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ بعض مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں جن کا براہ راست تعلق سکول کے ڈسپلن سے ہے۔ انجینئر شیر نبی اللہ خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چترال کی ترقی میں اس سکول کے کردار پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر ایسوسی ایشن کے عہدیدار ظہیر الدین اور سابق طالب علم عنایت اللہ اسیر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔Image may contain: 14 people

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button