تازہ ترین

یہ جو لاہور کی محبت ہے، یہ کسی اور کی محبت ہے

ہم ملتان والے تو یہ سمجھتے تھے کہ جس کا ملتان مضبوط ہے، اس کا اسلام آباد مضبوط ہے، لیکن اب عمران خان نے لاہور میں ممبر سازی کے دوران، یہ نیا تھیسز متعارف کردیا ہے کہ جس کا لاہور مضبوط ہوگا وہی اگلی حکومت بنائے گا، یہاں جنوبی پنجاب والے لاہور کو لاہور نہیں بلکہ تختِ پنجاب کہتے ہیں، اس لئے ان کے ذہن میں تو ہمیشہ ہی لاہور تخت و تاج کا مرکز رہا ہے، مگر درمیان میں منو بھائی کا یہ جملہ انہیں نہیں بھولتا کہ جس کا ملتان مضبوط ہو اس کا اسلام آباد بھی مضبوط رہتا ہے، تاہم عمران خان نے لاہور کے حوالے سے جو بات کی ہے، اس کا تعلق سیاسی حوالے سے لاہور کی کلیدی حیثیت سے جا ملتا ہے، شریف برادران نے پنجاب کو کچھ اس طرح قابو کر رکھا ہے کہ اب سیاسی مخالفین کے لئے یہ خواب بن گیا ہے کہ وہ تختِ لاہور پر کس طرح قبضہ کریں، لاہور کے بغیر اسلام آباد میں اقتدار ملے تو ہمیشہ لالو لنگڑا ہی ثابت ہوتا ہے، بے نظیر بھٹو 1988ء میں پہلی بار وزیراعظم بنیں تو لاہور ان کے لئے اجنبی بنا رہا، نواز شریف نے انہیں اسلام آباد تک محدود رکھا، محترمہ دوسری بار وزیراعظم بنیں تو انہوں نے بڑی مشکل سے بڑے جوڑ توڑ کے ذریعے پنجاب کو شریف خاندان سے آزاد کرایا تاہم تختِ پنجاب پر وہ پیپلز پارٹی کا بندہ پھر بھی نہ بٹھا سکیں، انہیں منظور وٹو کے نام پر اکتفا کرنا پڑا، تاہم اس سے فرق یہ پڑا کہ بے نظیر جب لاہور کے دورے پر آتی تھیں تو ہوائی اڈے پر پنجاب کا وزیراعلیٰ ان کے استقبال کو موجود ہوتا تھا، آصف زرداری جب صدر بنے تو انہوں نے پنجاب پر قبضہ کرنے کے لئے گورنر راج کا آپشن استعمال کیا، سلمان تاثیر گورنر تھے اور گورنر راج کے بعد تمام اختیارات ان کے پاس آگئے، مگر یہ حربہ تادیر کام نہ آیا اور عدالت کے حکم سے گورنر راج ختم ہوگیا اور شہباز شریف کی حکومت بحال ہوگئی، جب سے لے کر اب تک شہباز شریف پنجاب پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں، ان کا سارا زور لاہور کو ترقی یافتہ بنانے پر صرف ہورہا ہے۔ شاید وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جس کا لاہور مضبوط ہو اس کا اسلام آباد مضبوط ہوتا ہے، اب عمران خان لاؤ لشکر لے کر لاہور کو فتح کرنے نکلے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اس بار لاہور تحریکِ انصاف کے ساتھ ہوگا، جو لاہوریوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں ان کے نزدیک یہ اتنا آسان نہیں کہ تحریکِ انصاف شریف خاندان کا سحر توڑ سکے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس پر نواز شریف و شہباز شریف نے بڑی تحقیق کر رکھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ لاہوریوں سے ووٹ کیسے لینا ہے، گلی محلے تک انہوں نے بہت سیاسی کام کررکھا ہے۔ تاہم میرا نقطۂ نظر کچھ اور ہے، میرے خیال میں اسلام آباد کو مضبوط رکھنے کے لئے صرف لاہور کو مضبوط رکھنا ہی ضروری نہیں بلکہ پورے پنجاب پر گرفت ضروری ہے، صرف لاہور کو سامنے رکھا جائے تو سب نشستیں جیتنے کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت صرف لاہور کی بنیاد پر اقتدار میں نہیں آسکتی، حتیٰ کہ پنجاب پر حکمرانی کے لئے بھی پورے پنجاب سے جیتنا ضروری ہوجاتا ہے، ہاں لاہور ایک علامتی حوالہ ضرور ہے اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جو ہوا لاہور میں چلتی ہے، وہی پورے پنجاب میں چلتی نظر آتی ہے، یعنی ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے لاہور سے اکثریت حاصل کی ہو مگر اسے باقی پنجاب سے اکثریت حاصل نہ ہوئی ہو، ہاں جنوب پنجاب اب ایسا علاقہ بن چکا ہے، جو لاہور سے ہٹ کر سوچتا ہے، لاہور اپر پنجاب کے سارے شہروں کو اپنی لہر میں میں بہا لے جاتا ہے لیکن جنوبی پنجاب کے عوام اس سے مختلف فیصلہ دیتے ہیں، ماضی میں پیپلز پارٹی اپر پنجاب کے مقابلے میں جنوبی پنجاب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی رہی ہے، اسی طرح مسلم لیگ ن کو جنوبی پنجاب سے نسبتاً کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں، تاہم اس کے باوجود لاہور میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ہے کہ شریف برادران کی سیاست کا فوکس ہمیشہ لاہور رہا ہے، جنوبی پنجاب کا بجٹ ایک طرف اور لاہور کا بجٹ دوسری طرف، اس کے باوجود لاہور کا پلڑا بھاری رہتا ہے، اس حوالے سے شہباز شریف پر شدید تنقید بھی ہوئی ہے لیکن وہ اپنے اس طرزِ سیاست سے نہیں ہٹتے، اب ظاہر ہے کوئی نہ کوئی تو ایسی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی ساری توجہ لاہور پر رہتی ہے، اس کی کوئی نہ کوئی تو ایسی سیاسی اہمیت ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی، تاہم اس اہمیت کو شریف برادران نے ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی حاصل کئے ہیں، پیپلز پارٹی بھی تین بار اقتدار میں آکر دیکھ چکی ہے کہ لاہور کا تخت ساتھ نہ ہو تو حکومت کرنے کا مزا نہیں آتا، کیونکہ آدھے سے زیادہ ملک تو پنجاب پر مشتمل ہے، اگر اس کی راجدھانی ہی قبضے میں نہیں تو کیسی حکومت اور کیسی چودھراہٹ، سو اس بار تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے لنگر لنگوٹ کس لئے ہیں کہ ہر قیمت پر تختِ لاہور کو مسلم لیگ ن سے چھیننا ہے۔پنجاب میں سب سے بڑا فیکٹر شہباز شریف ہیں، انہوں نے پنجاب کی سیاست پر بڑی مضبوط گرفت رکھی ہوئی ہے، اب سارا دباؤ ان پر ہے کہ کسی طرح انہیں بھی نواز شریف کی طرح نا اہل کراکے پنجاب کو شریف خاندان سے ’’واگزار‘‘ کرایا جائے، لیکن یہ تو ایک مفروضہ ہے، ضروری نہیں کہ شہباز شریف نا اہل ہوں، یا ان کے خلاف عمران خان احتساب کا جو شکنجہ کسنا چاہتے ہیں وہ کارگر ثابت ہوسکے۔ اگر شہباز شریف کو بھی میدان سے ہٹا دیا جاتا ہے تو گویا پاکستان کی سیاست کا توازن ہی بگڑ جائے گا، کیونکہ مسلم لیگ ن سے اگر شریف خاندان کو نکال دیا جاتا ہے تو اس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سیاسی میدان میں خود کو زندہ رکھ سکے اور اگر مسلم لیگ ن میدان سے نکل جاتی ہے تو سیاست میں جمہوری سطح پر اس وقت جو سخت مقابلہ نظر آتا ہے وہ یکطرفہ رہ جائے گا، اس لئے شہباز شریف کو آسانی سے مائنس نہیں کیا جاسکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ جب وہ عام انتخابات میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کی بجائے ملک کے وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہوں گے، تو پنجاب کے تخت پر کسے بٹھایا جائے گا، اس پر مسلم لیگ ن کی مقبولیت یا عدم مقبولیت پر فرق پڑ سکتا ہے، نواز شریف کے سیاسی اثر کو برقرار رکھنے کے لئے بظاہر یہ ضروری لگتا ہے کہ مریم نواز کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار بنایا جائے۔ان کی موجودگی میں سیاسی مخالفین کو ایک سخت مقابلے کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر یہ سب باتیں کئی دوسری باتوں سے مشروط ہیں، مثلاً مریم نواز کو نیب ریفرنسز میں سزا نہ ہو، چوہدری نثار علی خان، شہباز شریف سے مسلم لیگ (ن) کو خاندانی سیاست سے باہر نکالنے کا مطالبہ نہ کریں اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ خود نہ مانگ لیں، مسلم لیگ ن کے مخالفین کی بہت سی امیدیں خود ن لیگ کی متوقع توڑ پھوڑ سے وابستہ ہیں، جیسے کہ شیخ رشید اور فواد چوہدری تقریباً روزانہ ہی یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، شیرازہ بکھرے یا نہ بکھرے، ایک امید تو باندھ لی گئی ہے اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ ن سے پنجاب کو چھینا جائے، پنجاب تو بعد میں چھینا جائے گا پہلے تو لاہور کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے، عمران خان نے ممبر سازی مہم کے ذریعے لاہور کے مختلف علاقوں کو تسخیر کرنے کا تاثر دیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے پاس سٹریٹ پاور ہے، مگر لاہور میں مسلم لیگ ن کا ووٹر بھی کیا اس مہم سے متاثر ہورہا ہے، اصل سوال یہ ہے، جب قومی حلقہ 120 میں ضمنی انتخاب ہوا تو تحریک انصاف نے بڑے جلسے کئے، کارنر میٹنگ بھی بہت جاندار تھیں لیکن انتخاب ووٹرز نے بیگم کلثوم نواز کا کیا اور مسلم لیگ ن سے سیٹ چھینی نہ جاسکی۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نیز پیپلز پارٹی کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے کہ پنجاب کو اب صرف لاہور کے ذریعے تسخیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے پورے پنجاب کو یکساں اہمیت دینی ہوگی، سب سے زیادہ دباؤ مسلم لیگ ن پر ہے کہ وہ اس تاثر کو زائل کرے کہ شہباز شریف کی ساری حکومت صرف لاہور تک محدود ہے، اورنج ٹرین جیسے مہنگے منصوبے اگر لاہور کے ووٹرز کو مسلم لیگ ن کے حق میں رام کرتے ہیں تو جنوبی پنجاب میں وہ ووٹرز کو اس سے دور بھی کردیتے ہیں، یہاں علیحدہ صوبہ بنانے کی جو تحریک چل رہی ہے، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں محروم رکھ کر سارے وسائل لاہور پر خرچ کئے جارہے ہیں، عمران خان نے اب اپنا بیانیہ تبدیل کرلیا ہے، غالباً وہ لاہوریوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے، اس لئے وہ اورنج ٹرین منصوبے پر براہ راست تنقید نہیں کررہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف چند ارب روپے سے لاہور میں ایک ایسا ہسپتال بھی قائم نہیں کرسکے، جہاں وہ اپنا علاج ہی کراسکتے، حالانکہ اورنج ٹرین منصوبے پر وہ دو سو ارب روپے خرچ کررہے ہیں، بہر حال آنے والے انتخابات میں جہاں لاہور کو مضبوط رکھنے کے جتن کئے جائیں گے، وہاں یہ بھی کرنا پڑے گا، کہ باقی ماندہ پنجاب کے عوام کو یہ یقین دلانا پڑے گا کہ ان کی محرمیوں کے ازالے کیلئے وسائل کا رخ دیگر شہروں خصوصاً پنجاب کی طرف بھی موڑا جائے تاکہ پورا پنجاب لاہور جیسی ترقی سے ہمکنا ر ہوسکے، لاہور کو تسخیر کرنے کا راستہ جنوبی پنجاب سے ہوکر گذرتا ہے، سیاست کے کھلاڑیوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے وگرنہ یہی لاہور انہیں چاروں شانے چت کردے گا۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button