تازہ ترین

داد بیداد…درہ وال۔ایک سبق…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

درہ وال کا نام ملک کے اندر اور ملک سے باہر ٹیکنالوجی کی دنیا میں مشہور ہے آج کل غیر ملکی جس طرح وطن عزیز میں آتے جاتے ہیں اور قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کر کے عدالتیں لگانے کی جو باتیں ہم سب کرتے ہیں یا ہم سے اکثر لوگ کرتے ہیں اس کے تناظر میں درہ آدم خیل کی تین کہانیاں آج کے کالم میں غازی عبد اللطیف زرغن خیل کی زبانی ہم تک پہنچی ہیں کہانیوں میں سبق ہے عبد اللطیف 1958ء سے اخبار پڑھتا آیا ہے جس زمانے میں انجام ، شہباز اور بانگ حرم شائع ہوتے تھے اس زمانے میں وہ ہاکر تھا اور آج بھی تین اخبارات کا مطالعہ کرتا ہے تو خبروں کا رس کشید کرتا ہے 1956ء کا پرائمری پاس آج کل کے گریجویٹ کے برابر نہیں تو گریجویٹ سے کم بھی نہیںیہ 1964ء کا واقعہ ہے بڈھ بیر ائیر بیس کے غیر ملکی افیسروں کی کوسٹر کوہاٹ جارہی تھی درہ بازار میں کوسٹر رکی غیر ملکی کوسٹر سے اترے انہوں نے درہ بازارکی سیر کی اسلحہ سازی کے کارخانوں میں گئے کاریگروں کو کام کرتے دیکھا درہ وال اسلحہ کا معیار دیکھا نو ر سید خان آفریدی کے جنرل سٹو ر میں گئے وہاں دیگر سامان کے ساتھ اسلحہ بھی وافر مقدار میں پڑا تھا کچھ وقت گذارنے کے بعد باہر نکلے ، کوسٹر میں بیٹھے اور کوہاٹ روانہ ہوگئے ان کے جانے کے بعد نور سیدخان آفریدی نے دیکھا تو 25بور کا ایک درہ وال پستول ( تماچہ )گُم ہوا تھا انہوں نے کوسٹر کے واپس آنے کا انتظار کیا شام سے پہلے کوسٹر کوہاٹ سے واپس آئی تو نوکر کے ذریعے کوسٹر کو روکاپاکستانی افیسر نیچے اترا نور سید خان افریدی خود ایف ایس سی کرچکے تھے فر فر انگریزی بولتے تھے پاکستانی افیسر کو انگریزی میںپستول کے گم ہونیکی بات بتائی دو غیر ملکی افیسر بھی کوسٹر سے اترے سڑک پر کھڑے کھڑے جرگہ ہوامشران بھی آگئے تلاشی کا مطالبہ پاکستانی افیسر نے نہیں مانا تو نورسید خان آفریدی نے کہا ہر شخص کی تلاشی نہیں ہوگی مجھے کوسٹر میں جانے دومیں ایک نظر دیکھوں گا اور ایک شخص کی تلاشی لوں گا یہ بات مانی گئی انہوں نے کوسٹر میں جاکر ایک شخص کو نیچے اتارا سامان کی تلاشی لی گئی تو چوری کا پستول برآمد ہوا آج پورا پاکستان 22کروڑ عوام اور 152ادارے ملکر غیر ملکی کوسٹر میں بیٹھے ہوئے چور کی تلاشی نہیں لے سکتے غیر ملکیوں کی اجتماعی چوری قبائلی لوگو ں کے کردار کو دیکھنے کی آزمائش تھی اس آزمائش میں درہ وال جیت گئے غیر ملکی ہار گئے اس وقت پستول کی قیمت 60روپے تھی اور ڈالر 5روپے کا تھا اسی طرح چوری کا سائیکل درہ بازار لایا گیا120روپے میں فروخت ہوا 10دن بعد پکڑا گیا سائیکل کی قیمت 500روپے تھی خریدار نے کہا ایک شخص نے یہ سائیکل میرے پاس رہن رکھ کر 120/-روپے قرض لیا ہے قرض واپس کرکے سائیکل لے جائے گا قرض کی میعاد 15دن ہے جرگہ نے کہا 120/-روپے ادا کروسائیکل لے جاؤ جنگل خیل کوہاٹ کے پیرانو کا آدمی تھا 120/-روپے اداکرکے سائیکل لے گیا یہ مقدمہ پولیس اور عدالت میں جاتا تو فیصلہ کرنے میں 25سال لگتے اور سائیکل والے کی جیب سے کم از کم اس زمانے کے 50ہزارروپے خرچ ہوتے اس زمانے میں ایک لڑکی کواغوا کر کے درہ آدم خیل لایا گیا ہفتہ نہیں گذر ا تھا کہ شکایت کرنے والے پشاور سے آگئے جرگہ کے سامنے مقدمہ رکھا گیالڑکی کے دو رشتہ داروں کو لڑکی سے ملوایاگیا اُس نے اپنی مرضی سے نکاح کر کے شادی کرنے کا اقرار کیا اورواپس جانے سے انکار کیا 6ہزار روپے کا تاوان لیکر اُن کو ادا کیا گیا اور دو گھنٹوں کے اندرمقدمہ کی کاروائی ختم ہوگئی یہ شکایت پولیس اور عدالت میں جاتی تو 25سالوں میں بھی اس کا فیصلہ نہ آتا اور ہر فریق کی جیب سے لاکھ روپے سے کم کا خرچہ نہ آتا زرغن خیل قوم سے ملک حسن خان کے لشکر میں کشمیر کے محاذ پر 1965ء کی جنگ میں داد شجاعت دینے والے غازی عبد اللطیف کی عمر اب 75سال ہے درہ بازار کا نور سید خان آفریدی وفات پاچکا ہے اس کا بیٹا خورشید خان آفریدی آج بھی زند ہ سلامت ہے پاکستانی قوم کو سر اٹھا کر چلنے کے لئے آج بھی 22کروڑ عوام اور 152اداروں کی جگہ ایک نور سید آفریدی چاہیئے جو غیر ملکیوں کو سبق سکھاسکے مگر بات وہی ہے جو فیض احمدفیض ؔ نے کہی
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چل

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button