تازہ ترین

کیا تحریک انصاف میں کوئی شخصیت جہانگیر ترین کے منصب پر فائز ہونے کی اہل نہیں ؟

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

  کیا تحریک انصاف میں کوئی اس قابل نہیں کہ جہانگیر ترین کی جگہ سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھال سکے، پارٹی کے اندر بہت سے لوگ اس عہدے کے لئے کوشاں بھی ہیں، لیکن فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سے جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی جائے گی اور اس کا فیصلہ آنے تک یہ عہدہ خالی رکھا جائیگا۔ ویسے تو پارٹیاں اپنی سیاست کی خود ذمے دار ہیں، ان کے پھڈے میں کسی کو ٹانگ نہیں اڑانی چاہئے۔ وہ جسے چاہیں اپنا صدر بنائیں، جسے چاہیں سیکرٹری جنرل بنائیں اور باقی عہدے بھی جسے چاہیں تقسیم کر دیں، لیکن تحریک انصاف نے دوسری سیاسی جماعتوں کے برعکس اپنے آپ کو ہمیشہ زیادہ جمہوری مزاج کی پارٹی ظاہر کیا ہے۔ اس کا عملی ثبوت دینے کے لئے پارٹی کے اندر بڑے دھوم دھڑکے سے انتخاب کرائے گئے تھے، لیکن جب بہت سی بے قاعدگیاں سامنے آگئیں تو معاملے کی تحقیقات جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد جیسے نیک نام جج کے سپرد کی گئیں۔ جنہوں نے تحقیقات کے بعد جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت چار پارٹی عہدیداروں پر بے قاعدگیوں کا الزام ثابت کیا اور چیئرمین سے یہ سفارش کی کہ ان چاروں کو پارٹی سے نکال دیا جائے، لیکن عمران خان نے اپنے ان چار پیاروں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی بجائے جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد ہی کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔
عام انتخابات میں ووٹ خریدنے کی شکایات پیدا ہوتی رہتی ہیں، لیکن یہ پہلی مرتبہ سنا کہ تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات میں بھی ووٹ خریدے اور بیچے گئے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد تو اپنی پارٹی بنا چکے ہیں اور باقاعدہ چیئرمین کے انتخاب تک وہ قائم مقام چیئرمین کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، لیکن انہوں نے جہانگیر ترین کو جن بے قاعدگیوں کا مرتکب گردانا تھا، وہ بے قاعدگیاں باانداز دیگر سامنے آگئیں اور جہانگیر ترین قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار پائے۔ اب ان کی نشست خالی قرار پائی ہے اور فروری میں اس پر ضمنی انتخاب ہوگا۔ اس دوران جہانگیر ترین لندن جاچکے ہیں اور پارٹی کی سرگرمیوں میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے، لیکن پارٹی نے ان کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ کیا ہے کہ نیا سیکرٹری جنرل اس وقت تک نہیں بنایا جائے گا جب تک ان کی نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ یہ درخواست ابھی دائر نہیں کی گئی، جب دائر ہوگی اس کے بعد ہی کسی فیصلے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ عام طور پر نظرثانی کی درخواست مسترد ہی ہوتی ہے اور شاید ایک فیصد (یا اس سے کم) کیسوں میں ایسی کوئی درخواست منظور ہوتی ہے کہ پہلے ہونے والا فیصلہ بالکل ریورس کر دیا جائے، لیکن کچھ عرصے سے یہ کلچر بھی فروغ پاچکا ہے کہ لوگ نظرثانی کی درخواستوں سے بھی کسی بنیاد کے بغیر امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں، ابھی زیادہ مدت نہیں گزری نوازشریف کو بھی آئین کی اس دفعہ کے تحت نااہل کیا گیا تھا جس کے تحت جہانگیر ترین کو کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو لکھا، چونکہ نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہوچکے ہیں، اس لئے ان کی جگہ نیا پارٹی سربراہ منتخب کیا جائے، جو ڈیڈ لائن الیکشن کمیشن نے دی تھی، اس کے اندر سردار یعقوب ناصر کو مسلم لیگ (ن) کا قائم مقام سربراہ منتخب کرلیا گیا تو تحریک انصاف کے چیئرمین نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ پارٹی میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے صدارت سونپی جاسکے۔ اب اگر کوئی یہی سوال عمران خان سے کرے کہ عہدہ خالی رکھنے میں کیا مصلحت ہے، کیا پوری پارٹی میں کوئی ایسا شخص نہیں جو جہانگیر ترین کی جگہ لے سکے؟ تو ممکن ہے ان کا ردعمل جارحانہ ہو، کیونکہ وہ اپنی پارٹی کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور دوسری پارٹیوں کو بالکل مختلف انداز سے۔ یہ درست ہے کہ پارٹی کے اندر کوئی ایسا رہنما نہیں جو جہانگیر ترین جتنا ٹیکس دیتا ہو، لیکن پارٹی کے اندر بہت سے رؤسا موجود ہیں، جو جہانگیر ترین کی طرح پارٹی کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں، لیکن ان میں سے شاید کوئی ایسا نہیں جس کے پاس اپنا ذاتی جہاز ہو، اگر سیکرٹری جنرل کے لئے ذاتی جہاز ہونا واقعی کوئی شرط ہے تو باہر سے کسی ایسے شخص کو پارٹی میں لایا جاسکتا ہے جس کے پاس اپنا جہاز ہو اور وہ اسے پارٹی سرگرمیوں کے لئے وقف کرنے کے لئے بھی تیار ہوں۔ ویسے انتخابی اصلاحات کے قانون میں جو ترمیم حال ہی میں کی گئی ہے جس سے فائدہ اٹھا کر نواز شریف دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ہیں، اس کے تحت جہانگیر ترین بھی سیکرٹری جنرل رہ سکتے ہیں یا پھر ان کا کوئی صاحبزادہ یہ منصب سنبھال سکتا ہے، شنید ہے کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین اپنے والد کی خالی نشست پر انتخاب لڑنے کا پروگرام بنا رہے ہیں، اگر وہ پارٹی کے پہلے سے رکن نہیں ہیں تو بھی انہیں فوری طور پر پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا جاسکتا ہے۔ عام انتخابات میں زیادہ وقت نہیں ہے، اس لئے سیکرٹری جنرل کا عہدہ جتنی جلد پر کرلیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے پارٹی کو جہانگیر ترین کی نااہلی سے خاصا صدمہ پہنچا ہے، اس صدمے کی کیفیت سے نکلنے کے لئے وقتی طور پر یہ عہدہ خالی رکھا جا رہا ہے۔ خود جہانگیر ترین بھی اسی صدمے کے اثرات کم کرنے کے لئے بیرون ملک گئے ہیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button