این اے 4 : تحریک انصاف بمقابلہ جماعت اسلامی ۔۔۔۔ نامور سیاستدان کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبر نے ملکی سیاست کو بدل کر رکھ دیا

لاہور (ویب ڈیسک) خیبر بینک کے معاملے پر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید کے درمیان جو تنازعہ پیدا ہوا تھا اس میں اگرچہ وزیر اعلیٰ نے بظاہر وزیر خزانہ اور جماعت اسلامی کے موقف کی حمایت کی تھی اور خیبر بینک کے سربراہ شمس القیوم کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا لیکن ایک سال سے زیادہ عرصے تک یہ معاملہ حل ہوئے بغیر ہی معلق چلا آتا رہا۔نامور صحافی قدرت اللہ چوہدری اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان ہر دوسرے چوتھے مہینے یہ مطالبہ ضرور کرتے رہے کہ اگر کارروائی نہ کی گئی تو جماعت اسلامی صوبائی حکومت چھوڑ دے گی لیکن فریقین کو داد دینی چاہئے کہ نہ تو خیبر بینک کے ایم ڈی شمس القیوم کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی جماعت اسلامی نے صوبائی حکومت کو خیر باد کہا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ وقت خود بہت بڑا مرہم ہے وقت نے اس زخم کو یوں بھر دیا کہ حکومت نے شمس القیوم کو اس وقت برطرف کیا جب ان کی ریٹائرمنٹ قریب آ پہنچی تھی وہ اس حکم کے خلاف عدالت چلے گئے وہاں یہ طے ہوا کہ وہ عہدے میں توسیع نہیں مانگیں گے اور حکومت برطرفی کا نوٹس واپس لے لے گی اور یوں یہ معاملہ خود بخود طے ہوگیا۔
عین ممکن تھا کہ حکومت اگر برطرفی کا نوٹس واپس نہ لیتی تو عدالت سے مختلف قسم کا حکم آ جاتا چنانچہ اس میں عافیت سمجھی گئی۔ اب پوزیشن یہ ہے کہ اسمبلی اور حکومت اپنے آخری برس میں داخل ہو گئی ہیں لیکن جماعت اسلامی بدستور شریک اقتدار ہے۔ حالانکہ دونوں جماعتوں میں سیاسی اختلافات بھی ہیں۔ ہرچند کہ دونوں جماعتیں شریک حکومت ہیں لیکن دونوں اندر خانے ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں بھی مصروف ہیں۔ پشاور کے حلقہ این اے4میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں حکومت میں تو تحریک انصاف کااتحاد جماعت اسلامی کے ساتھ ہے لیکن حکومت سے باہر دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑی عوام سے ووٹ مانگ رہی ہیں دونوں نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہوئے ہیں گزشتہ دنوں جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک جماعت اسلامی کے پاس اس مقصد کے لئے گئے کہ وہ اپنا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں بٹھا دے تو جماعت کے صوبائی امیر نے وزیراعلیٰ کو یہ منطقی جواب دیا کہ ہمارے امیدوار کی پوزیشن بہتر ہے اس لئے تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرانا چاہئے۔ اس کا جواب پرویز خٹک کیا دیتے مایوس ہو کر واپس آ گئے۔
اب یہ تو الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کس امیدوار کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے دونوں جماعتوں کے امیدوار مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور مقابلہ دلچسپ شکل اختیار کر گیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن)،جمعیت علمائے اسلام(ف) اور قومی وطن پارٹی نے سہ جماعتی اتحاد بنا رکھا ہے۔ قومی وطن پارٹی بھی دو مرتبہ صوبے کی مخلوط حکومت میں شامل ہوئی لیکن دونوں مرتبہ اسے الگ ہونا پڑا۔ پہلی مرتبہ اس کے وزیروں پر کرپشن کا الزام لگایا گیا لیکن بعدازاں قومی وطن پارٹی کو دوبارہ شریک حکومت کرلیا گیا۔ دوسری بار کرپشن کا الزام لگانا تو شاید یاد نہ رہا البتہ یہ کہا گیا کہ قومی وطن پارٹی نے کرپشن کے خلاف تحریک انصاف کی جدوجہد میں اس کا ساتھ نہیں دیا، یاد رہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں نے سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی درخواستیں دیں لیکن قومی وطن پارٹی نے اس معاملے پر تحریک انصاف کا ساتھ دینا پسند نہیں کیا۔
اب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان تازہ تنازعہ قومی اسمبلی کے رکن شیر اکبر خان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے مسئلے پر پیدا ہوا ہے،گزشتہ کئی دن سے یہ خبریں میڈیا میں گشت کر رہی تھیں کہ 8اکتوبر کو بونیر میں عمران خان کے جلسے میں شیر اکبر خان جماعت چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے، لیکن اب ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شیر اکبر خان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں اور یہ اعلان صوبائی حکومت نے باقاعدہ ایک ہینڈ آؤٹ کی شکل میں کیا ہے، لیکن جماعت اسلامی کا یہ دعویٰ ہے کہ ایسا نہیں ہوا، شیر اکبر تو بونیر کے جلسے میں شریک ہی نہیں ہوئے اور صوبائی حکومت کا ہینڈ آؤٹ غلط ہے اس لئے واپس لیا جائے۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ شیراکبر خان کی بجائے بونیر کے جلسے میں ان کے بھائی فاروق خان شریک ہوئے جنہوں نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان نے سرکاری ہینڈ آؤٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ واپس نہ لیاگیا تو جماعت اسلامی احتجاج پر مجبور ہو گی۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ہینڈ آؤٹ کے مطابق وزیراعلیٰ نے شیراکبر خان کی تحریک انصاف میں شمولیت کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ تحریک انصاف کی عوام دوست پالیسیوں کی وجہ سے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ بونیر کا جلسہ شیراکبر خان کی شمولیت کے لئے ہی منعقد کیاگیا تھا اگر وہ جماعت اسلامی کے بقول جلسے میں موجود ہی نہیں تھے اور تحریک انصاف میں شامل بھی نہیں ہوئے تو پھر وزیراعلیٰ خیرمقدم کس بات کا کر رہے ہیں؟ اب دیکھیں جماعت اسلامی نے ہینڈ آؤٹ واپس نہ لینے کی صورت میں جس احتجاج کی دھمکی دی ہے اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ احتجاج جاری رہے گا اور جماعت اسلامی بدستور شریک حکومت بھی رہے گی۔ جس طرح شمس القیوم کے معاملے پر احتجاج اور حکومت ساتھ ساتھ چلتی رہی حتیٰ کہ وقت نے یہ معاملہ خود بخود حل کر دیا، اب اگلے برس انتخاب سے پہلے تک یہ صورتحال جاری رہے گی۔