تازہ ترین

ملی مسلم لیگ حافظ سعید کے وژن پر بنی ہے‘

 لاہور کے این اے 120 کے الیکشن کا معرکہ تو بالاآخر اختتام کو پہنچا۔

جیت جیسا کہ مبصرین کا خیال تھا مسلم لیگ ن کے ہاتھ آئی۔ دوسرے نمبر پر بھی اندازوں کے مطابق تحریک انصاف نے ووٹ لیے لیکن اس انتخاب کے دوران دو مذہبی جماعتوں کی ووٹوں کے اعتبار سے تیسری اور چوتھی پوزیشن نے بعض حلقوں کو حیران کر دیا ہے۔

چند روز پہلے میں نے حال ہی میں وجود میں آنے والی ملی مسلم لیگ پر ایک سٹوری کرنے کے لیے لاہور کا سفر کیا۔ پرانے شہر کے علاقوں پر مشتمل اس حلقے میں انتخابی رنگ ڈھنگ تو روایتی ہی تھا اور لگ رہا تھا کہ مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتیں ایک ایک ووٹ کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں۔ لیکن اس حلقے میں خاص طور پر میری توجہ ملی مسلم لیگ پر رہی۔

ملی مسلم لیگ کے نام سے جماعت الدعوۃ کی سیاسی جماعت

مذہبی جماعت کی سیاسی جماعت اور آزاد امیدوار

حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں کلثوم نواز ’کامیاب‘

وہ پارٹی جو اگست کے اوائل میں وجود میں آئی ہے۔ اور ابھی رجسٹریشن کے لیے اس کی درخواست الیکشن کمیشن میں زیرغور ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ پارٹی کا موجودہ دفتر لکشمی چوک میں ہی بنایا گیا ہے۔

لکشمی چوک بھی این اے 120 میں ہی واقع ہے۔ یہیں سے ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار محمد یعقوب شیخ کی انتخابی مہم بھی چلائی جارہی تھی۔

 
اتوار کا دن تھا، پارٹی ترجمان کو دفتر پہنچنے میں کچھ دیر تھی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اتنی دیر میں حلقے کا ماحول دیکھا جائے۔ وہی صحافیوں کا مخصوص طریقہ واردات۔ ہم نے حلقے کے مختلف علاقوں میں ڈرائیو کیا۔ کچھ جگہوں پر اتر کر مقامی لوگوں سے گپ شپ کی۔

حلقے کے درودیوار مختلف پارٹیوں کے پوسڑز سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے خاص طور پر قابل توجہ وہ پوسٹر تھا جس میں قائد اعظم کے ساتھ زیر نگرانی تنظیم جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کی تصویر تھی اور نیچے لکھا تھا ’روشن پاکستان کا نشان‘۔

جب ملی مسلم لیگ کے نوجوان ترجمان تابش قیوم سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پہلی وضاحت یہی کی کہ یہ جماعت الدعوہ کا سیاسی ونگ نہیں ہے بلکہ ایک علیحدہ جماعت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حافظ سیعد اس جماعت کے رکن بھی نہیں ہیں لیکن ملی مسلم لیگ پاکستان حافظ صاحب کے وژن پر بنی ہے۔

 
لکشمی چوک میں پارٹی کے دفتر میں خوب گہما گہمی تھی۔ اور ایک بالکل نئی پارٹی ہونے کے باوجود ان کا نظام کافی منظم لگ رہا تھا۔

قانونی امور، میڈیا یونین کونسل اور ووٹر لسٹوں سمیت مختلف شعبوں کے لیے مختلف ڈیسک بنائے گئے تھے۔ خواتین کے لیے بھی ایک ڈیسک لگایا گیا تھا جس پر اس وقت تو دو مرد براجمان تھے۔ اور دفتر میں کوئی خاتون موجود نہیں تھی۔ مجھے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک لمحے کے لیے احساس ہوا جیسے میں جماعت الدعوہ کے دفتر میں آگئی ہوں۔ کئی مانوس چہرے بھی دکھائی دیے۔

اور ملی مسلم لیگ کے ترجمان نے اعتراف بھی کیا کہ جماعت الدعوتہ کے بہت سے لوگ ان کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم پارٹی چونکہ رجسڑڈ نہیں اس لیے باقاعدہ رکنیت سازی نہیں ہو رہی۔

ہر جماعت کی طرح ملی مسلم لیگ کے لیے سوشل میڈیا کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ ان کا سوشل میڈیا سیل دیکھ کر ہوا جس میں آڈیو ویڈیو اور گرافکس کے ذریعے بھرپور انتخابی اور تشہیری مہم چلائی جارہی تھی۔

بڑے ہال میں ملٹی میڈیا کے ذریعے پولنگ ایجنٹس کی ٹریننگ ہورہی تھی۔ 20 کے قریب افراد اس میں شامل تھے جو موبائل فون اور مختلف ایپس کے ذریعے تمام عمل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

دفتر میں کام کرنے والوں اور مہمانوں کے لیے لنگر کا انتظام بھی تھا۔ ہال کے پیچھے ایک برآمدے میں ایک بڑے سے توے پر درجنوں پراٹھے ایک ساتھ تلے جارہے تھے۔ وہی لاہوریوں کا مخصوص برنچ۔

ایک ایسی پارٹی کے لیے جسے بنے ابھی تقریباً ایک ماہ ہوا تھا، ایسی تنظیم اور تیاری میرے لیے حیران کن تھی۔ ترجمان تابش قیوم سے نئی جماعت کے سیاسی پروگرام اور ایجنڈے پر بھی بات ہوئی اور پالیسیوں پر بھی۔

اس سوال پر کہ انھیں اتنا اعتماد کیوں ہے کہ ملی مسلم لیگ رجسٹر ہو جائے گی، مجھے بتایا گیا کہ اس حوالے سے تمام قانونی اور آئینی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ اور اگر اس کے باوجود انھیں اجازت نہ ملی تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹائیں گے۔

 
ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار محمد یعقوب شیخ سے بھی ملاقات ہوئی۔ جو جماعت الدعوتہ کے سابق رکن بھی ہیں۔ یعقوب شیخ حلقے میں اپنی مہم چلانے میں مصروف تھے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی درخواست پر حافظ سعید نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اس سے قطع نظر کہ مبصرین اس انتخاب کے دوران ملی مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمی اور دو مذہبی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں یا اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شدت پسند جماعتوں سے وابستہ نوجوانوں کو سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کے طور پر لیا جارہا ہے، یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے۔

عالمی سطح پر متنازع شخصیات، گروہوں اور سوچ سے جڑی پارٹیوں کی عوام میں قبولیت کی گنجائش موجود ہے۔ این اے 120 کا انتخاب نواز شریف کی نااہلی سے متعلق فیصلے پر ریفرینڈم سے بڑھ کر ایسے ہی اشارے دے رہا ہے۔

اور سوال یہ ہے کہ کیا این اے 120 میں سامنے آنے والا رجحان صرف اسی حلقے تک محدود رہے گا یا آئندہ عام انتخابات میں اس کا اثر پورے ملک میں پھیل جائے گا۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button