اس فیصلے کے بعد پولیس کی نوکری کون کرے گا؟

سوشلستان میں اس ہفتے قدرتی آفات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا تذکرہ رہا جس میں انڈیا کے شہر ممبئی میں بارشوں اور طوفان سے ہونے والی تباہی اور امریکی ریاست ٹیکساس کے مناظر بھی شیئر کیے گئے۔ کراچی کی بارش اور اس کے نتیجے میں شہر کے برے حال کا تذکرہ بھی ہوا جس میں 70 سال قبل کی تصاویر کو اس سال کی تصاویر کے ساتھ لگا کر موازنہ کر کے دکھایا گیا کہ حالات سات دہائیوں بعد بھی نہیں بدلے۔
مگر اس ہفتے کے سوشلستان میں ہم ذکر کریں گے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس کے فیصلے پر آنے والے ردِ عمل کی اور اس بات کی کہ ملتان میٹرو کے معاملے میں چینی سفارت خانے نے ٹویٹ کیوں کی۔
‘بینظیر کا ایک بار پھر قتل’
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے فیصلے کے بعد دو ردِ عمل سامنے آئے ایک اس فیصلے کے نتیجے میں بری ہونے والوں کی بریت اور سزا پانے والوں کی سزا پر اور دوسرا بینظیر ہی کی سیاسی جماعت جس کے چیئرمین کوئی اور نہیں ان کے صاحبزادے ہیں، کی جانب سے اس فیصلے میں عدم دلچسپی پر۔
نتاشا نے برجستہ اس فیصلے پر تبصرہ لکھا کہ ریاست نے بینظیر کو ایک بار پھر قتل کر دیا۔
رانا جواد نے ٹویٹ کی کہ ‘معذرت بے نظیر بھٹو، بہت معذرت یہ ملک ابھی انصاف کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔’
بختاور جواد نے لکھا کہ ‘کیا عدالت صرف سویلیئنز کو سزا دینے کے لیے ہے؟ مشرف کو سزا دیں تو پھر عدلیہ کی عظمت کا پتا چلے گا۔’
شہزاد ناصر نے طنز کرتے ہوئے لکھا ‘بینظیر قتل کیس میں ملزمان کو ‘شک کا فائدہ’ دیتے ہوئے بری اور دو پولیس افسروں کو ‘شک کی بناپر’ 17 سال قید۔ یہ ہوتا ہے انصاف۔’
معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر نے ٹویٹ کی کہ ‘بینظیر کے قتل کیس میں بہت ہی برا فیصلہ۔ کیا یہی انصاف ہے؟’
رانا اسد اللہ خان نے لکھا کہ ‘اس فیصلے میں کسی کی بھی دلچسپی نہیں تھی۔ سب نظر کا دھوکا تھا۔ کوئی بھی حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔’
اس بات پر ارمغان احمد نے لکھا کہ ‘بہت دکھ کی بات ہے کہ بینظیر کی اپنی سیاسی جماعت بھی انھیں انصاف دلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔’
ایک تبصرہ یہ آیا کہ ‘بینظیر کے مقدمۂ قتل کے فیصلے میں اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ صرف بینظیر خود ہیں’۔
اور ایک پولیس افسر نے چوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘بینظیر کے قتل کیس میں حقیقی ذمہ داروں کو 17 برس قید ہوئی۔ جو کہ شہر کے پولیس افسر اور ایک ایس پی ہیں۔ معصوم اور بے گناہ تحریکِ طالبان پاکستان کے اراکین کو باعزت بری کیا گیا۔ آج تک طالبان کے خلاف تو کوئی ثبوت نہیں ملے نہ کسی کو سزا ہوئی اور پولیس والوں کو عدلیہ نے تین سو دو میں جیل بھجوا دیا ہے۔’
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس کے بعد پھر پولیس میں کوئی کس دل سے کام کرے گا۔ یہ جج ہی پھر سکیورٹی فراہم کریں گے۔’
ملتان میٹرو میں غبن اور چینی سفارت خانہ
گذشتہ چند دنوں سے ملتان میٹرو میں مبینہ طور پر غبن یا بدعنوانی کے حوالے سے پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یکساں کافی بحث ہو رہی ہے اور چند نیوز چینلز کی جانب سے بہت زیادە تنقید کی گئی۔
اس سارے معاملے کی بنیاد ایک چینی کمپنی بتائی جاتی ہے جسے یبیت کہا جاتا ہے جس کے خطوط کو بنیاد بنا یہ سارا معاملہ کھڑا کیا گیا۔
مگر یہ ساری صورتحال تب تبدیل ہو گئی جب چینی سفارت خانے کے نائب لی جیان ژاؤ نے اس بات کی تردید کی کہ یہ کمپنی کبھی پاکستان میں کام بھی کرتی تھی۔
مگر اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان تک اس جعلی خبر کی زد میں آ کر ٹویٹ کر چکے تھے جس میں انھوں نے لکھا کہ ‘جس طرح پاناما پیپرز نے نواز شریف خاندان کی بدعنوانی کو بے نقاب کیا اسی طرح چینیوں نے ملتان میٹرو میں شہباز شریف کی جعل سازی کو بے نقاب کیا ہے انھیں براہِ راست ملوث کرتے ہوئے۔’
اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی جعلی خبر کی بنیاد پر یا سنی سنائی کو آگے بڑھانے پر پاکستانی سیاستدانوں یا اس معاملے کی طرح تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
اس ہفتے کی تصاویر

سیاست دان عموماً بارش کے دنوں میں پبلک ریلیشننگ کی خاطر نکلتے ہیں مگر بعض اوقات اس قسم کی پبلک ریلیشننگ کی کارروائیاں بھی ہو جاتی ہیں۔