وہ پاکستانی گاؤں جو اب انڈیا کا حصہ ہے
سنہ 1947 کے موسم گرما میں ہر برس کی طرح دو بھائی پوئین سے ہندرمن بروق گئے۔ مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں کے اوپر جہاں ان کا ایک اور گھر تھا۔ لیکن پھر وہ برسوں تک کارگل کے اپنے گاؤں میں واپس نہیں آسکے۔
ہندرمن پاکستان کا حصہ اور پائن انڈیا کا حصہ بن گیا۔
ان کا چھوٹا ہوا گھر، جائیداد اور ہر چیز اس ملک میں رہ گئی جو رات بھر میں ‘دوسرا ملک’ بن گیا تھا۔
لائن آف کنٹرول پر بسا 20 گھروں پر مشتمل وہ لداخی گاؤں پھر سے انڈیا کے ساتھ ہے!
لیکن انڈیا میں شمولیت کے لیے اس گاؤں کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔
محمد کاظم کا کہنا ہے کہ ‘پہلے پاکستان میں تھا۔۔۔۔ سنہ 47 سے پہلے۔۔۔۔۔ نہیں یہ ہندوستان میں سب سے پہلے تھا، پھر پاکستان میں تھا ۔۔۔۔ اس کے بعد وہ اب پھر ہندوستان میں آیا۔’
کاظم گاؤں جانے والے راستے پر درخت کے نیچے بیٹھ کر ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہیں: ‘یہاں، پاکستان تھا اور یہاں انڈیا بیٹھ گیا تھا۔
وہ اپنی عمر کچھ 80 سے 85 کے درمیان بتاتے ہیں۔ ان کی چھوٹی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
جہاں ہم موجود تھے وہاں پہاڑی پر وہ سڑک بھی نظر آتی ہے جس سے لوگ پاکستان جایا کرتے تھے۔ سنہ 1971 میں انڈین فوج نے گلگت بلتستان کے بعض حصوں پر قبضہ کرلیا تھا۔
1971 کی جنگ محض سات دنوں تک جاری رہی۔ پھر انڈيا نے اس گاؤں پر قبضہ کر لیا اور پاکستانی اسے چھوڑ کر چلے گئے۔
علی محمد کہتے ہیں: ‘آٹھویں دن انڈین فوج نے پورے گاؤں کو گھیر لیا۔ خواتین، مردوں اور گاؤں کے بچوں کو کھیتوں میں کھڑا کیا گیا تھا، جس کے بعد ایک ایک گھر کی تلاشی لی گئی تھی، یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں کوئی دشمن تو نہیں چھپا تھا، یا پھر ہتھیار وغیرہ۔ لیکن فوج کو کچھ نہیں مل سکا۔’
علی محمد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور بس چند گھنٹوں میں ہی وہ انڈین بن گئے تھے!
دو سال بعد، انڈین فوج نے وہاں اسکول قائم کیا جس میں علی محمد نے داخلہ لے لیا۔
دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بعد علی محمد پاکستانی کے بجائے اب انڈین ہوچکے تھے۔ لیکن حسین خان بالیرام میں پھنس گئے تھے جو پاکستان میں رہ گيا تھا۔
1985 میں ان کا ایک خط اپنی بہن تک پہنچ گیا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ان کے آخری خظ کا جواب نہیں مل سکا اور اگر ان سے غلطی ہوئی ہو تو وہ معافی کے طلب گار ہیں۔
دو پہاڑیوں کے درمیان آباد هنڈرمن گاؤں نے گذشتہ 70 سالوں میں چار جنگیں اور اکثر و بیشتر زبردست گولہ باری دیکھی ہے۔
الیاس کی عمر 32 سال کی ہے اور کارگل کی جنگ کو انھوں نے اچھی طرح سے دیکھا تھا۔
1965 میں، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ اس علاقے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی، هنڈرمن چار ماہ کے لیے کسی بھی ملک کا حصہ نہیں تھا۔
کارگل جنگ کے وقت گاؤں میں کوئی ہائی اسکول نہیں تھا۔ بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے کارگل جانا پڑا تھا، اور فائرنگ کی وجہ سے، لڑکوں اور لڑکیوں کو کبھی کبھی پورا دن کہیں بھی چھپے رہنا پڑتا تھا.
کارگل کی جنگ کے دوران تمام مشکلات کے باوجود گاؤں کے مرد و خواتین نے فوج کی مدد کی۔
علی محمد بتاتے ہیں: ‘صبح میں مال لے کر جاتے تھے، رات میں گولہ بارود بھی ڈھونا پڑتا تھا۔’
فوجیوں کو سامان فراہم کرنا یہاں کے لوگوں کا جدی پشتی کام ہے۔ چاہے وہ 85 برس کے کاظم ہوں، یا اب ان کے بیٹے یا پھر 27 سال کے محمد الیاس۔
دس سال کی عمر سے پورٹر کے کام میں لگے محمد الیاس کہتے ہیں کہ یہ کام بڑا خطرناک ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک گدھے پر قریب 30-35 کلو کا وزن لاد کر سات سے آٹھ کلومیٹر کے پہاڑوں پر چڑھ کر فوج کی پوسٹوں تک پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن تنگ پتھريلے راستوں پر اگر کوئی گدھا بدک جاتا ہے تو باقی گدھوں کی اور آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔’
محمد کو فوج کے لیے ایک گدھے پر اشیا ڈھونے کے 300 روپے ملتے ہیں، لیکن وہ ہنستے ہوئے شکایتی لہجے میں کہتے ہیں کہ پیسہ صرف گدھے کا ملتا ہے آدمی کی مزدوری نہیں ملتی ہے!
وہ کہتے ہیں: ہماری پشتیں فوج کی مدد کرتی رہی ہیں۔ کارگل کی جنگ میں اس گاؤں نے بہت مدد کی تھی لیکن ہمارے بچوں کو ملازمت نہیں دی جاتی ہے، فوج میں بھی کبھی نہیں۔