تازہ ترین

بینظیر قتل کیس: ’مجرمانہ غفلت سے جائے وقوعہ کو ناقابلِ تلافی قصان پہنچا‘

پیپلز پارٹیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس قتل کی تحقیقات میں جھول پائے گئے اور بینظیر کی سکیورٹی کے لیے مناسب انتظامات کیے ہوتے تو ان کی ہلاکت کو روکا جا سکتا تھا۔

عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے سے تحقیقاتی عمل کو نقصان پہنچا اور ہلاکت کی اصل وجوہات سامنے نہیں آ سکیں۔

’عدالت میں پیش ہونے سے فیصلہ نہیں بدلنا تھا‘

بینظیر قتل کیس میں بری ہونے والے پانچ افراد نظر بند

بینظیر بھٹو قتل: پانچ ملزمان بری، مشرف اشتہاری، پولیس افسران کو سزا

بینظیر بھٹو 27 دسمبر سنہ 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج اصغر خان نے جمعرات کو تقریباً دس برس بعد اس مقدمۂ قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ مرکزی ملزمان کو تو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا تھا جبکہ دو پولیس افسران سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ٹاؤن خرم شہزاد کو 17، 17 برس قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے اس کے علاوہ واقعے کے وقت ملک کے سربراہ جنرل(ر) پرویز مشرف کو ‘اشتہاری’ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف الگ سے مقدمہ چلانے کا حکم بھی دیا ہے۔

46 صفحات پر مشتمل اس مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جمعے کی شام جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو کی ہلاکت انھیں لاحق خطرات کے تناسب سے تحفظ کے انتظامات نہ کیے جانے کی وجہ سے ہوئی۔

فاضل جج نے فیصلے میں کہا ہے کہ اس قتل کی تحقیقات میں جھول پائے گئے اور استغاثہ اس قتل کی سازش اور پانچ ملزمان کا باہمی تعلق ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تاہم سعود عزیز اور خرم شہزاد پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتنے کا الزام ثابت ہوا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ وہ پولیس اہلکار جن کی ذمہ داری بینظیر کی گاڑی کو ‘باکس سکیورٹی’ فراہم کرنا تھی، انھیں سی پی او راولپنڈی سعود عزیز نے ہٹوایا اور کسی ہنگامی صورتحال کے لیے کوئی منصوبہ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا۔

فیصلے کے مطابق دھماکے کے بعد بینظیر بھٹو کی گاڑی کو اکیلا چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس کے ساتھ پولیس ایسکورٹ موجود نہیں تھا جو اس صورت میں اسے جلد از جلد قریبی ہسپتال تک پہنچا سکتا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دھماکے کے ایک گھنٹہ 40 منٹ بعد ہی جائے وقوعہ کو دھونے کا فیصلہ بلاجواز تھا جس کا نتیجہ جائے وقوع سے ثبوتوں کی تباہی کی شکل میں نکلا اور ڈی این اے تجزیوں کے لیے مزید ثبوت اکٹھے کرنا انتہائی مشکل ہو گیا۔

عدالت نے کہا کہ دونوں پولیس افسران (سعود عزیز اور خرم شہزاد) کی مجرمانہ غفلت سے جائے وقوعہ کو وہ نقصان پہنچا جس کی تلافی ممکن نہیں تھی۔

بینظیرتصویر کے کاپی رائٹAFP

فیصلے میں بینظیر کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات بھی دیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ کمیشن ان نتائج پر پہنچا تھا کہ بینظیر کی ہلاکت کے دن ان کی سکیورٹی کی ذمہ دار وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اور راولپنڈی کی ضلعی پولیس کی تھی اور ‘ان میں سے کسی نے بھی بینظیر کو لاحق غیرمعمولی خطرات سے بخوبی وافق ہوتے ہوئے بھی ان کے تناسب سے ضروری اقدامات نہیں کیے۔

عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمیشن نے کہا تھا کہ’بینظیر بھٹو کو اگرچہ کئی ذرائع سے خطرات لاحق تھے لیکن تحقیقات کے دوران خطرات کے سرچشموں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے چھوٹی مچھلیوں پر ہی ہاتھ ڈالا گیا اور تحقیق کاروں نے اس معاملے میں ‘اسٹیبلشمنٹ’ کے عناصر کے ملوث ہونے کا امکان بھی رد کیا جن میں وہ تین افراد بھی شامل تھے جن کی نشاندہی خود بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف کو 16 اکتوبر 2007 کو تحریر کیے گئے خط میں ایک خطرے کے طور پر کی تھی۔‘

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ فیصلے میں کہا ہے کہ سرکاری اہلکار پہلے تو بینظیر بھٹو کو تحفظ دینے میں ناکام رہے اور پھر ان کے قتل کے ذمہ داران بشمول اس حملے کا منصوبہ بنانے اور اس کے لیے مالی مدد فراہم کرنے والوں کے بارے میں پوری صلاحیت سے تحقیقات بھی نہیں کی گئیں۔

خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ بینظیر کے قتل کی تحقیقات ملک کے خفیہ اداروں اور دیگر حکومتی اہلکاروں کی وجہ سے متاثر ہوئیں اور یوں سچ کی تلاش میں رکاوٹیں آئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کمیشن کو دی گئی ان وضاحتوں کے باوجود کہ ان خفیہ اداروں کو مجرمانہ تحقیقات کا مینڈیٹ حاصل نہیں تھا، آئی ایس آئی سمیت خفیہ ادارے پولیس کی تحقیقات کے اہم مراحل میں موجود رہے جن میں جائے وقوعہ سے ثبوت جمع کرنا اور بینظیر کی گاڑی کا فورینزک معائنہ شامل ہیں۔

کمیشن کے مطابق آئی ایس آئی نے اس واقعے کی اپنے طور پر تحقیقات بھی کیں اور ثبوت اکٹھے کرنے کے علاوہ مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا لیکن ان تحقیقات کے دوران جمع شدہ ثبوتوں سے پولیس کو مکمل طور پر آگاہ نہیں کیا گیا۔

کمیشن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ پولیس کے تحقیقات کار جس سمت میں تفتیش کر رہے تھے اگرچہ وہ خفیہ اداروں کی ہی متعین کردہ تھی لیکن انھوں نے پولیس کو اس سلسلے میں بیشتر معلومات فراہم ہی نہیں کیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button