تازہ ترین

ٹرمپ کے الزامات پر پاک فوج کا صبر ختم،ایسا جواب دیدیا کہ سوچابھی نہ ہوگا

راولپنڈی (این این آئی)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان پر دہشتگردوں کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر پاکستان دہشتگردوں کی حمایت کرتا تو پھر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 73ہزار شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی جان کیوں لی جاتی ؟ امریکی فوجی افسران اور اہلکاروں کوحالیہ دورہ پاکستان کے دور ان حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے شواہد فراہم کئے گئے تھے ٗافغانستان اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں ٗسرحدی میکنزم کا مقصد صرف اور صرف دہشتگردوں کو دونوں ممالک میں داخل ہونے

سے روکنا ہے ٗ افغانستان کو اس پر تحفظات ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ تیسرا راستہ کونسا ہے جس سے غیر قانونی آمدورفت روکی جاسکے ٗ افغانستان رضا مندہو تو سرحد پر پاکستانی سائیڈ کی طرح افغان سائیڈ پر بھی باڑ اور قلعے لگانے کو تیار ہیں ٗ بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔منگل کو آئی ایس پی آر میں افغان صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں منفی چیزوں کی بجائے مثبت چیزوں پر توجہ دینی چاہیے ٗمیں نے کبھی بھی بحیثیت فوجی ترجمان افغان فوج یا افغان حکومت کے خلاف بیان نہیں دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا کو دونوں ممالک کے درمیان پل کا کر دار ادا کر ناچاہیے ٗ آپ یہاں موجود ہیں اور آپ جس چیز کا بھی پاکستان میں خود مشاہدہ کرتے ہیںہماری درخواست ہے آپ افغانستان جا کر لوگوں سے ضرور اس کا ذکر کریں ۔انہوں نے کہاکہ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ پاکستان میں آپ جہاں بھی جاناچاہتے ہیں ہم آپ کو لے جانے کیلئے تیار ہیں تاکہ آپ خود ہر چیز دیکھ سکیں ۔انہوں نے کہاکہ سرحدیں بند کر نا اچھا اقدام نہیں ہے اور نہ ہی مسائل کا حل ہے ایسے فیصلوں سے پاکستان کو بھی نقصان ہوتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان نے سرحد پر جو میکنزم قائم کیا ہے اس کا مقصد پر امن لوگوں کو سرحد پار کر نے میں مدد فراہم کر نا ہے اس میکنزم کا مقصد صرف اور صرف دہشتگردوں کو دونوں ممالک میں داخل ہونے سے روکنا ہے ۔انہوں نے کہاکہ اگر افغانستان کو اس نظام پر تحفظات ہیں تو ہمیں بتایا جائے ٗکونساتیسرا راستہ ہے کہ سرحد پر غیر قانونی آمدورفت کو روکا جائے ۔ایک سوال پر فوجی ترجمان نے کہاکہ پاک افغان سرحد پر آمدورفت کے بند راستے چھ سے نو ماہ میں کھول دیئے جائینگےابھی ان جگہوں پر طور خم اور چمن کی طرح آلات لگائے جارہے ہیں جب یہ کام مکمل ہو جائے تو باقی راستے بھی کھول دیئے جائینگے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر نگرانی کا نظام قائم کر نے سے سرحد پار سے حملوں میں بہت کمی ہوئی ہے پہلے تقریباً 150 دہشتگردوں پر مشتمل گروپ افغانستان سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کر تے تھے لیکن گزشتہ تین سالوں میں اس طرح کے حملوں کی کوششوں میں کمی آئی ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان نے اپنی سائیڈ پر بہت سی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان بھی سرحد کی نگرانی کیلئے اپنی جانب ایسے اقدامات اٹھائیگا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے پر الزامات سلسلہ بند کر نا چاہیے ۔میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ پاکستان نے کبھی بھی افغان حکومت یا فوج پر پاکستانی دہشتگردوں کی حمایت کا الزام نہیں لگایا بلکہ پاکستان کہتا رہا ہے کہ دہشتگردوں نے افغان سر زمین کو استعمال کر کے پاکستان پر حملہ کیا ۔انہوں نے کہاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ مولوی فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور وہاں وہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لیتا ہے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ افغان حکومت ان حملوں میں ملوث ہے لیکن پاکستان کا موقف یہ ضرور ہے کہ بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہاکہ افغان حکومت نے پاکستان کو جن 64مطلوب افراد کی فہرست دی تھی اس میں شامل حقانی نیٹ ورک کے سات اراکین افغانستان میں مارے گئے ہیں ۔ہماری انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اس فہرست میں درجنوں شدت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور کئی مارے گئے ہیں ۔انہوں نے پاکستان پر دہشتگردوں کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہاکہ اگر پاکستان دہشتگردوں کی حمایت کرتا تو پھر اس جنگ میں ہمارے 73ہزار شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جان کیوں لی جاتی ؟انہوں نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اور بھارت میں بہت فرق ہے اگر مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور بھارت میں اس کی عبادت کی جاتی ہے ۔حقانی نیٹ ورک کے بارے میں انہوں نے کہاکہ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد اس نیٹ ورک کا وہاں سے صفایا کیا گیا ہے فوجی آپر یشنز سے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقے اور مالا کنڈ ڈویژن ٹی ٹی پی کے زیر اثر تھے لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں انہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں اس وقت پاکستان کے تقریباً دو لاکھ بیس ہزار سکیورٹی اہلکار موجود ہیں جبکہ 2001میں یہ تعداد 34000تھی ۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان فوج کی جانب سے افغان سکیورٹی فورسز کو اپنے مراکز میں تربیت دینے کی پیشکش کیانہوں نے کہاکہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے افغان حکومت کو پیشکش کی ہے کہ جس طرح ہم اپنی سائیڈ پر باڑ لگا رہے ہیں اور قلعے قائم کئے ہیں اگر افغان حکام راضی ہوں تو اسی طرح کانظام افغانستان میں بنانے کیلئے تیار ہیں حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے افغان صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہاکہ امریکی فوجی افسران اور اہلکاروں کے حالیہ دورہ پاکستان کے دور ان انہیں حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے حوالے سے شواہد فراہم کئے گئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔انہوں نے کہاکہ امریکی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک یا کسی اور گروپ کے درمیان مواصلاتی رابطوں کا پتہ لگا سکتی ہے ۔وہ اس بات کی گواہی دینگے کہ اس گروپ کی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو گئی ہیں انہوں نے کہاکہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کی حمایت کا ت
اثر مضحکہ خیز ہے ۔فوجی ترجمان نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان براہ راست اور آزادانہ تعلقات ہونے چاہئیں ۔افغانستان پاکستان کو کسی اور کی نظروں سے نہ د یکھے ۔پاکستان اور افغانستان کو یہاں رہناہے اور بھارت اور دیگر یہاں سے چلے جائینگے ۔ہم افغانستان کو کسی اور کی نظروں سے نہیں دیکھتے ۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button