مضامین

سلام شاگرد

دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات ’’ ‘‘
تمہار ی آنکھوں میں اُتری یہ معصومیت میرے لئے کھلی کائنات ہے ۔۔یہ میرا خواب نگر ہے ۔۔میں اس میں ایک بڑے بیوروکریٹ کو دیکھتا ہوں ۔۔ایک عالم دین ۔۔ایک بڑا اُستاد ۔۔ایک نابعہ روزگار سائنسدان ۔۔ایک مصلح سیاستدان۔۔ایک نڈر راہنما۔۔ایک بہادر جرنل ۔۔ایک جری پائیلٹ ۔۔ایک بے مثال کھیلاڑی ۔۔ایک فنکار ۔۔ ایک پھول۔۔ایک پنگڑی۔۔ایک خواب ۔۔ایک آرزومیری نظروں کے سامنے ہوتا ہے ۔۔۔تمہیں کیا پتہ ہے ۔۔یہ میں دیکھتا ہوں ۔۔ میرے سامنے تو نہیں ہوتا ایک شبیہ ہوتا ہے ۔۔ایک خوشگوار احساس۔۔ایک ٹھنڈی چھاؤں ۔۔ایک نیلا آکاش۔۔بیکراں فضاؤں میں جست لگاتا ہوا ایک شاہین ۔۔ایک چہکتا ہوا بلبل ۔۔ایک شگوفہ۔۔ایک چاند ۔۔۔ایک جگنو اندھیکا رختم کرنے والا ۔۔تم میری نظروں ، میری سماعتوں اور میرے دل کی دھڑکنوں میں ہو ۔۔میں تیرا مستقبل دیکھتا ہوں اور تیری آنے والی زندگی کا لمحہ لمحہ ۔۔میں اُستاد ہوں ۔۔مجھے تمہاری ساری کمزوریاں اور کوتاہیاں بھی نظر آتی ہیں ۔۔تیرے ابو کو تیری کوتاہیاں نظر نہیں آتیں ۔۔تم میری زندگی ہو اس لئے کوئی بھی دنیا میں زندگی کی تلخیوں کو برداشت نہیں کر سکتا ۔۔زندگی اچھنبا ہے میں اس کو حقیقت میں بدلنا چاہتا ہوں ۔۔حقیقت اور مفروضے کے درمیان بڑا فاصلہ ہوتا ہے اس میں روکاوٹیں ہوتی ہیں ۔۔اس کے لئے درد سہنا پڑتا ہے میرے ساتھ تم بھی سہہ لو ۔۔تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو تم روشنی ہو ۔۔تمہارے لئے سمندر کی مچھلیاں دعا کرتی ہیں ۔۔تم میری بھی نجات کا ذریعہ ہو ۔۔تم گلشن انسانیت کے پھول ہو میں تمہیں سینچ رہا ہوں ۔۔میں ایسا مالی ہوں کہ میرا کام کبھی کانٹوں سے نہیں ہوتا ۔۔میں جنت میں ہوں تم میری جنت ہو ۔۔میرا کام مہا کاج ہے ۔۔زمانہ مجھے زمانہ ساز کہتا ہے ۔۔وقت مجھے انسان ساز ۔۔قوم مجھے محسن کہتی ہے ۔۔بڑے بڑے مغرور نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے ’’کرام‘‘ کہتے ہیں ۔۔یہ سب تمہاری معصوم آنکھوں کی دین ہیں ۔۔یہ سب تمارے گداز ہاتھوں کی لکیروں کوپڑھنے کے انعام ہیں ۔۔تم ایک نغمہ ہو میں تجھے گاتا رہتا ہوں ۔۔تم ایک شعر ہو میں تجھے گنگناتا رہتا ہوں ۔۔تم ایک پھول ہومیں تیری خوشبو سونگھتا رہتا ہوں ۔۔سکول کے درودیوار شاید تم کو اچھی نہ لگیں ۔لیکن میں ان کے لئے تڑپتا ہوں کیونکہ تم وہاں ہوتے ہو ۔۔میں کمرے میں داخل ہوتا ہوں ۔۔تماری شرین آواز آتی ہے ۔۔’’اسٹئنڈ‘‘ پھر پتہ ہے کہ تم بہت فاتحانہ انداز میں کھڑے ہوتے ہو ۔۔اس سمے میں ایک جنرل ہوں اورتم میرے وفادار سپاہی ۔۔میں سیدھا تیری اکھیوں سے تیرے دل میں اُترتا ہوں تیری رگ رگ میں سما جاتا ہوں ۔۔میں ایک خوشبو بن جاتا ہوں جو تیری مشام جان معطر کر دیتی ہے ۔۔پھرمیرا لفظ لفظ تیرے دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے ۔۔معاشرہ خواہ مجھے بھلا سمجھے یا برُا سمجھے میرا تعلق تم سے ہے ۔۔میں ڈاکٹر نہیں کہ میرا تعلق مریض سے ہو ۔میں کوئی انجینئرنہیں کہ میرا تعلق سڑک بنانے سے ہو ۔۔میں کوئی پولیس مین نہیں کہ میرا تعلق کسی چور اچکے سے ہو ۔۔میں کوئی سیاست دان نہیں کہ میں کرسی کی خاطر اپنی نیندیں حرام کردوں ۔۔میرا دل مطمین ہے میں ہمیشہ چاند دیکھتا رہتا ہوں ۔۔پھول سو نگھتارہتا ہوں ۔۔یہ لو آج تمہاری نازک اُنگلیوں میں پنسل ہے کل ایک مضبوط قلم ہو گا تم لوگوں کی زندگیاں لکھو گے ۔۔تم حق لکھو گے ۔۔آج تم میرے سامنے سمٹ کے بیٹھے ہو ۔۔کل تمہارے سامنے لوگوں کا ہجوم ہوگا ۔۔آج تم میرے ایک اشارے پہ جست لگاتے ہو کل تمہارے ایک اشارے پہ وقت ناچے گا ۔۔آج تمہیں میرے حکم کا انتظار ہے کل سب کو تیرے حکم کا انتظار ہو گا ۔۔مجھے یقین ہے تم میری پہچان بنو گے اس لئے کہ میں تمہارے لئے خواب دیکھ رہا ہوں آج مجھے تمہاری کلا س میں تھکن محسوس ہو رہاہے ۔تمہیں پڑھاتے پڑھاتے میری پیشانی پہ پسینے آجاتے ہیں ۔۔اس کا انعام مجھے ملے گا ۔۔اگر ایسا ہے کہ محنت نہیں کر تا ہوں تو میں تمہیں کبھی یاد نہیں آؤں گا ۔۔اگر میری یادوں کا کوئی حوالہ ہوگا بھی تو اچھا حوالہ نہیں ہو گا ۔۔تمہیں پچھتاوا ہو گا تو میں ہی تمہارا پچھتاوا ہونگا ۔۔کہ تجھے ایسا استاد کیوں ملا ۔۔ تم میری زندگی ہو میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا ۔۔تم ایک موتی ہو میں تیری حفاظت کرونگا ۔۔تم ایک سونا ہو میں تمہیں آگ میں ڈال کر کندن بناؤ ں گا ۔تم ایک پھول ہو میں تمہیں سینچوں گا ۔۔۔تم ایک مسافر ہو میں تمہیں راستہ دیکھاؤں گا ۔۔تم ایک سپاہی ہو میں تمہیں لڑنا سیکھا ؤنگا ۔۔تم ایک کند ہتھیار ہو میں تمہیں سان صیقل سے تیز دھار بناؤنگا ۔۔پھر تم مجھ پہ ناز کرو گے تم مجھے بھولوگے نہیں ۔۔تیری انگ انگ سے میری تربیت کی خوشبو آئے گی ۔۔تم جوا حترام مجھے دیتے ہو یہ احترام نہ کوئی سپاہی اپنے جنرل کو دیتا ہے اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو ۔۔لوگ کہتے ہیں کہ اُ ستاد کی عزت نہیں ہے کیوں ایسا کہتے ہیں ایسا سوچنے والے مجھ سے پوچھیں کہ احترام کس چیز کو کہتے ہیں ۔۔ ہمیں ہجوم کی نہیں فرد کے احترام دینے کی ضرورت ہے ۔۔ہمیں سلوٹ کی نہیں ہمیں دیکھ کر دل دھڑکنے کی ضرورت ہے ۔آنکھوں میں چمک اُترنے کی ضرورت ہے وہ کیفیت اور منظر مجھ سے پوچھو ایسا ہوتا ہے کہ نہیں ۔۔ میرے شاگردو تم میری زندگی ہو تم مجھے یہ سب کچھ دے سکتے ہو جس کو زمانہ احترام کہتا ہے ۔۔ مجھے محبت چاہیے ۔۔خالص اور پاکیزہ محبت ۔۔جو میرے شاگردوں کی آنکھوں میں میرے لئے موجود ہوتی ہے ۔۔کوئی مجھ سے اتفاق کرے یانہ کرے۔۔ میرے شاگرد میری زندگی ہیں ۔۔۔مجھے اپنے شاگردوں پہ فخر ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔سلام شاگرد۔۔۔۔۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button